کراچی( نمائندہ خصوصی) عالمی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بھارت اور ترکی سے کم ہے۔اعداد وشمار کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کے باوجود پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد رہی۔ ملک بیروزگاری کے لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں 16 ویں نمبر پر تھا۔ماہرین کے مطابق بدلتے ہوئے معاشی حالات کے ساتھ شرح میں اتار چڑھاﺅ آتا رہتا ہے۔ جب معیشت خراب حالت میں ہو اور ملازمتیں نایاب ہوں تو بے روزگاری کی شرح میں اضافے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ماہرین نے کہاکہ پاکستان کو اپنی معیشت کو فروغ دینے کے لئے آئی ایم ایف کے فنڈز کی اشد ضرورت ہے ، جو سیاسی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے دبا میں ہے۔ جنوبی ایشیائی ملک کے لیے آئی ایم ایف کی فنڈنگ بہت اہم ہے۔مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم ہیں کہ بمشکل ایک ماہ کی کنٹرول شدہ درآمدات کو پورا کیا جا سکا ہے۔ مالی سال 2022-2023 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 0.29 فیصد رہنے کے ساتھ پاکستان کی معیشت سست روی کا شکار ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مجموعی بے روزگاری کی شرح (6.3فیصد)اور گریجویٹس (16.1فیصد)کے درمیان فرق تقریبا 10 فیصد ہے۔ادارے نے اس موازنے کیلئے فروری 2001 سے فروری 2020 تک کے اعداد و شمار کا استعمال کیا۔اپریل میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میکرو اکنامک عدم توازن میں بتایا گیا ہے کہ اس رجحان کی چار بڑی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے ان گریجویٹس کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے پیش کی جانے والی تعلیم اور معیشت کی ضرورت کے درمیان بڑا فرق. دوسرا، یونیورسٹی اور صنعت کے درمیان کمزور روابط، تیسرا، ملازمتوں کی تلاش میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لیبر فورس میں اضافہ اور آخر میں، معیشت کی سکڑتی ہوئی حالت۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انجینئرز کے لئے بے روزگاری کی شرح 11 فیصد سے بڑھ کر 23.5 فیصد ہے جو صرف دو سالوں میں دوگنی ہوئی ہے۔ کمپیوٹر سائنس اور زراعت کے گریجویٹس کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میڈیکل کے شعبے میں میں بےروزگاری کی شرح میں صرف 2 سال میں 68 فیصد کا اضافہ ہوا۔