اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ دفاعی ایریا میں جانیوالوں کا ٹرائل آرمی ایکٹ اور باقی کا متعلقہ عدالتوں میں ہوگا،499 میں سے صرف 6 ایف آئی آر ہیں جنہیں پراسس کیا جارہا ہے، صرف 6 ایف آئی آر کا ٹرائل ممکنہ طور پر ملٹری کورٹ میں ہوسکتا ہے ،پنجاب میں صرف 19 اور خیبرپختونخوا میں صرف 14 ملزمان کو ملٹری حکام کے حوالے کیا ہے،عمران خان ایک سال سے مسلسل نفرت کی سیاست کررہے تھے، انہوں نے نفرت کی سیاست میں 25 مئی کو اسلام آباد پر حملہ کرنا تھا،عمران خان ایک فتنے کا نام ہے، قوم نے فتنے کی شناخت اور ادراک نہ کیا تو فتنہ قوم کو خطرے سے دوچارکردےگا۔جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے بتایا کہ 9 مئی کو ہوئی ہنگامہ آرائی پر ملک بھر میں 449 مقدمات درج ہوئے جس میں 88 انسداد دہشت گردی ایکٹ ،411 دیگر قوانین کے تحت درج کی گئیں۔انہوںنے کہاکہ ملک بھر سے انسداد دہشت گردی کے مقدمات میں 3 ہزار 946 افراد کو حراست میں لیا گیا جس میں پنجاب میں 2 ہزار 588، خیبرپختونخوا میں 11 سو افراد کو گرفتار کیا گیا۔انہوںنے کہاکہ دیگر مقدمات میں 5 ہزار 536 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 80 فیصد ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 449 ایف آئی آرز میں سے صرف 6 کو پراسس کیا جارہا ہے جس میں 2 پنجاب جبکہ 4 خیبرپختونخوا میں ہیں جن کا ممکنہ ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے تاہم فضا ایسی بنائی جارہی ہے جیسا سب کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ملزمان کی مجموعی تعداد میں سے پنجاب میں صرف 19 کو اور خیبرپختونخوا میں 14 کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا باقی کسی جگہ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ فوجی حکام مقدمات کی تفتیش کریں گے تاہم پورا ٹرائل شفٹ نہیں ہوگا، وہ یہ دیکھیں کہ کیس میں کہاں کہاں ملٹری ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگر ایک اے ٹی اے کے کیس میں 300 ملزمان میں سے 10 ایسے ہیں جنہوں نے ملٹری یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تو اس پر فوجی ٹرائل صرف ان کی حد تک محدود ہوگا بقیہ ملزمان کے ٹرائل عام عدالتوں میں چلیں گے۔واشنگٹن میں ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپٹل ہل میں کی گئی ہنگامہ آرائی کا حوالہ دیتے ہوئے وہاں ایسی تنصیبات نہیں تھیں لندن فسادات میں ملوث افراد سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا جس نے اسپیکر کے ٹیبل پر تصویر کھچوائی تھی اسے 4 سال سزا ہوئی تھی وہاں تو زلمے خلیل زاد نے تو کوئی ٹوئٹ نہیں کیا وہاں انہیں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نظر نہیں آرہی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ممنوعہ علاقوں میں کوئی بھی ملزم گھستا ہے تو اس کےلئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے نہ نیا قانون یا فوجی عدالت بنانے کی ضرورت ہے وہ پہلے سے موجود ہیں اور اپنا کام کررہی ہیں اور دفاع سے متعلق معاملات پر ان کا پورا دائرہ اختیار ہے۔انہوں نے کہا کہ جناح ہاو¿س صرف کور کمانڈر کی رہائش گاہ نہیں بلکہ ان کا کیمپ آفس بھی تھا جہاں حساس نوعیت کی چیزیں موجود تھیں مثلاً اگر کوئی وہاں لیپ ٹاپ ہوگا تو اس میں حساس معلومات ہوں گی، اس مقامات تک رسائی کی گئی چیزیں جلا دی گئیں یا انہیں اٹھا لیا گیا تو ان کی ریکوری فوجی حکام کریں گے یا کوئی اے ایس آئی کرے گا۔انہوںنے کہاکہ یہ کتنا حساس معاملہ ہے کہ اگر وہاں سے اٹھائی گئی کوئی چیز ہمسایہ ملک سے استعمال ہوتی ہیں تو اس کے کیا اثرات ہوں گے تو کیا یہاں سیاسی احتجاج کے خلاف ایکشن ہورہا ہے؟ آخر ریاست کے دفاع کا مسئلہ ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کی صوابدید، وزیراعظم یا آرمی چیف کی مرضی نہیں ہے بلکہ یہ ریاستی ذمہ داری ہے دفاع پاکستان کی ذمہ داری ہےکہ اگر کسی نے دفاع سے متعلق کسی مقام میں داخلہ کیا وہاں سے کوئی چیز اٹھائی یا جلائی تو اس کا ٹرائل اور کسی قانون کے تحت نہیں ہوسکتا صرف ملٹری اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے ہی تحت ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا یہ پابندی ہے، کوئی خواہش نہیں اور اس کا سسٹم موجود ہے۔انہوںنے کہاکہ ملٹری ایکٹ گزشتہ 71 سال سے نافذ ہے اسے بار بار مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا گیاتاہم اسے کالعدم قرار نہیں دیا گیا کیوں کہ اس کی ضرورت ہے،اس کے بغیر آپ ان علاقوں کا دفاع نہیں کرسکے۔