کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کراچی کو یومیہ 600 ملین گیلن پانی مل رہا ہے جبکہ 1200 ایم جی ڈی کی طلب ہے جو 600 ایم جی ڈی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ کراچی میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی کے باعث طلب اور رسد کے فرق میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس طرح کی طلب کو پورا کرنے کا انحصار خالصتا K-IV منصوبے کی کامیاب اور بروقت تکمیل پر ہو گا جسے کل 650 ایم جی ڈی کے تین مراحل میں مکمل کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ بات انہوں نے وزیراعلی ہاس میں K-IV کے نام سے معروف گریٹر کراچی واٹر سپلائی پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کراچی شہر کو یومیہ 1200 ایم جی ڈی پانی کی طلب ہے جس کے نتیجے میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تقریبا 600 ایم جی ڈی دو ذرائع حب ڈیم اور کینجھر جھیل (دریائے سندھ) سے فراہم کر رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ تقریبا 600 ایم جی ڈی کی کمی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ 260 ایم جی ڈی کی صلاحیت کے ساتھ K-IV فیز I کو واپڈا کے ذریعے مکمل کیا جا رہا ہے اور یہ 2025 میں مکمل ہو جائے گا بشرطیکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے فنڈز کی روانی کو یقینی بنایا جائے۔ وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی سے 113 ارب روپے فراہم کرنے ہیں تاہم یہ معلوم ہوا ہے کہ اس منصوبے کو اہم سرگرمیوں کے حوالے سے کیش فلو کے مسائل کا سامنا ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ منصوبے میں تاخیر ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے شیڈول اووررن کی وجہ سے لاگت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب موجودہ معاشی مسائل سے بخوبی واقف ہیں پھر بھی K-IV پروجیکٹ فنڈز کی خصوصی کمٹمنٹ کا مستحق ہے کیونکہ اس سے کراچی – منی پاکستان کے شہر کو بڑا ریلیف ملے گا۔ مراد شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت نے K-IV منصوبے کے اضافی کام پر عملدرآمد کی ذمہ داری لی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ K-IV مین اسٹریم پراجیکٹ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ اضافہ کا کام مکمل نہیں ہو جاتا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ توسیعی منصوبے کا دائرہ کار واپڈا کے بنائے گئے تین آبی ذخائر(R1، R2 اور R3)سے شروع ہوکر شہر کے وسط میں متعلقہ نوڈل پوائنٹس تک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام وفاقی اور صوبائی اراضی کے مالک اداروں کو K-IV منصوبے کیلئے اپنی ملکیت کے اندراج میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے K-IV کےمین اسٹریم کے ساتھ اضافے کے منصوبے کو فروغ دینے کیلئے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا جس کیلئے پی سی-1 کیلئے 52 ارب روپے CDWP اور ECNEC سے منظوری کیلئے پہلے ہی وزارت منصوبہ بندی حکومت پاکستان کو جمع کرائے جا چکے ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت پانی کی بڑھتی ہوئی طلب سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس لیے کراچی میں پانی کی دستیابی کے دیگر ذرائع کی بھی تلاش شروع کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت گندے پانی کی ری سائیکلنگ کیلئے کراچی کے صنعتی زونز کو پانی فراہم کرنے کیلئے منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں اور ہم نے کراچی میں سی واٹر ریورس اوسموسس (SWRO) پلانٹس کو دو مختلف مقامات پر پائلٹ بنیادوں پر لگانے کا بھی عزم کیا ہے۔ ۔ وزیراعلی سندھ نے وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ پی ایس ڈی پی 2023-2024 میں کراچی میں گندے پانی کو ری سائیکل کرنے اور سمندری پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس کے گرین فیلڈ منصوبوں کیلئے مماثل فنڈز دینے پر غور کریں۔ انہوں نے وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ برائے مہربانی پلاننگ ڈویژن کو مخصوص ہدایات دیں تاکہ K-IV اگمینٹیشن پروجیکٹ پر متعلقہ فورم سے ایک مقررہ ٹائم لائن کے اندر فوری منظوری لی جا سکے۔ انہوں نے K-IV فیز-I پراجیکٹ (260 MGD) کی تکمیل اور اس کے بعد کے مستقبل کے مراحل کی تشخیص کے بعد وفاقی حکومت اور واپڈا کو اپنی مکمل حمایت فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔