اسلام آباد(تحقیقاتی رپورٹ: نمائندہ خصوصی) ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور شرعا انسانیت کا تقاضا بھی ہے کہ جتنا ہو سکے انسانیت کی خدمت کی جائے مگر دور حاضر میں اس کے بر عکس ہے۔ ہمارے اس معاشرے میں چند ٹکوں کی خاطر معصوم جان تک لے لی جاتی ہے اور اگر کوئی سائل بن کر پولیس کے پاس چلا جائے تو پھر اللہ تعالی معاف کرے پولیس اس کے ساتھ انسانیت سے بھی گرا ہوا سلوک کرتی ہے۔ اسی طرح کا انسانیت سوز راولپنڈی کے تھانہ صادق آباد کی رہائشی طاہرہ کے ساتھ بھی ہوا۔طاہرہ نے اپنی بپتا سناتے ہوئے بتایا کہ وہ کسی اعصابی بیماری میں مبتلا ہیں اور ہومیو پیتھک سے لے کر راولپنڈی کے تمام ہسپتالوں اور ڈاکٹر صاحبان سے علاج معالجہ کرواتی رہیں مگر آفاقہ نہ ہوا تو کسی پڑوسن نے بتایا کہ یہاں ساتھ ہی گلی میں سعیدہ باجی دم درود کے ذریعے علاج کرتی ہیں اور پیسے وغیرہ بھی نہیں لیتی ہیں۔ طاہرہ نے بتایا کہ وہ علاج کے سلسلہ میں سعیڈہ بیگم کے گئیں تو انہوں نے کہا کہ تم پہ سخت جادو ٹونہ کے تعویذ ہیں اور ان کا توڑ صرف جادو سے ہو گا اور اس کے پیسے لگیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے تفصیلات جاننا چاہیں تو سعیدہ بیگم نے تمام تر اخراجات کا تخمینہ لگا کر بتایا کہ21 دن کا علاج ہوگاجس کی کل مالیت مبلغ50 ہزار روپے ہو گی اور اگر علاج نہ کر سکی تو پیسے واپس کر دوں گی۔طاہرہ نے بتایا کہ میں نے مبلغ 30 ہزار روپے سعیدہ بیگم کو ادا کر دیے مگر چھ ہفتے گزرنے کے باوجود بھی کسی قسم کا آفاقہ نہ ہوا تو میں نے شکوہ کیا تو سعیدہ بیگم آگے سے بگڑ گئیں اور کہنے لگیں جاؤ نہ میں پیسے واپس کرتی ہوں اور نہ مزید علاج کرتی ہوں تم نے جہاں جانا ہے میرے خلاف جو کرنا ہے کرلو۔طاہرہ نے بتایا کہ وہ درخواست لے کر تھانہ صادق آبادچلی گئیں تو وہاں میرے ساتھ جانوروں سے بھی پرے سلوک کیا گیا۔ہر روز صرف مجھے تھانے بلا لیا جاتا اور یہ کہہ دیا جاتا کہ چھوڑو اس درخواست کو اور پیسے سعیدہ بیگم کو معاف کردویہاں پر آبدیدہ ہوتے ہوئے طاہرہ نے بتایا کہ اس کے دونوں والدین وفات پا چکے ہیں اور اس کے بھائیوں نے اسے پالا پوسا اور پڑھایا اور میرے بھائیوں نے ہی اپنی ہلال کی کمائی سے مجھے علاج کیلئے یہ پیسے دیے تو میں کیسے یہ پیسے حرام کی راہ جانے دوں۔طاہرہ نے بتایا کہ میرے سخت احتجاج اور اسرار پر پولیس نے سعیدہ بیگم کو بلایا اور اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مجھے کہا کہ اس کاغذ پہ دستخط کریں اور انگوٹھا لگا دیں اب کاروائی کا آغاز ہو گا اور سعیدہ بیگم کیخلاف باقاعدہ قانونی کاروائی ہوگی۔طاہرہ نے بتایا کہ بہت دن تک میں تھانہ کے ایس ایچ او تاج گل ٹال مٹول سے کام لیتے لیتے مجھے تھانہ کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر طاہر کا نمبر دے دیااور اس طرح ایس ایچ او تاج گل کی جگہ تھانہ صادق اباد کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر طاہر نے مجھے ٹالنا شروع کر دیا۔ طاہرہ نے بتایا کہ میرے سخت احتجاج اور تلخ جملوں پر اے ایس آئی طاہر نے کہہ دیا کہ آپکی درخواست ایس ایچ او نے داخل دفتر کر دی ہے۔طاہرہ نے بتایا کہ اس بات پر جب میں نے ایس ایچ اوتاج گل کے سامنے سخت الفاظ میں احتجاج کیا تو تاج گل ایس ایچ او نے مجھے پھر پینترا بدل کے کہا کہ نہیں اپکی درخواست ہم نے خواتین پولیس تھانہ کو بھیج دی ہے آپ کو آج کل میں وہاں سے کال آ جائے گی مگر آج ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی نہ مجھے خواتین تھانہ سے فون آئی اور نہ ہی کسی نے رابطہ کیا ہے۔ مبینہ جادوگرنی سعیدہ بیگم کے جادو کی بھینٹ چڑھنے والی متاثرہ طاہرہ نے سی پی او راولپنڈی، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ اس جعلی جادوگرنی سے میری رقم برآمد کروا کر مجھے دی جائے اور اس کیخلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ یہ جعلی جادوگرنی کسی اور معصوم شہری کو نہ ڈس سکے۔اس پوری بپتا کی موجودہ صورتحال جاننے کیلئے تھانہ صادق آباد کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر طاہر کو ان کے موبائل نمبر03125012731 پہ کال کی مگر انہوں نے شاید کال سننی گوارا نہیں کی۔بعد ازاں خواتین تھانہ کی ایس ایچ او بشری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی بھی کیس یا درخواست میرے علم میں نہیں ہے اور نہ ہی تھانہ صادق آباد نے کوئی ایسی فائل بھیجی ہے اگر آئی تو میرٹ پر تحقیقات کر کے ملوث کرداروں کو کیفر کردار تک پہچایا جائے گا۔