کراچی (تحریرآغاخالد)
ان کہی اور تنہائیاں، جیسے یادگار ڈراموں سے شہرت پانے والی پرکشش اداکارائوں شہناز شیخ اور مرینہ خان کو بھی "گرہن” لگ گیا یہ کمبخت بڑھاپا بھی کیا سیاپا ہے کاش یہ ہماری زندگیوں میں نہ ہوتا تو زندگی کتنی پرلطف ہوتی ممکن ہے ہماری اگلی نسل یا ان کے بچے اس سے چھٹکارہ پالیں اور پھر ایسے مہکتے کتابی چہرے کے ساتھ اجل کولبیک کہیں تو فرشتے بھی مہمان کی آمد پر عش عش کراٹھیں برصغیر کے ذہیں ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے وصیت کی تھی کہ مرنے سے قبل مجھے شیو ضرور کروادینا تاکہ فرشتوں کی سوہنے بھٹو سے ملاقات ہو اسی لئے وقت کے آمر کی کال کوٹھڑی میں جب بھٹو کو اگلی صبح سوئے دار کردینے کا حتمی حکم موصول ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے شیونگ کا سامان طلب کیا بابا بلھے شاہ اور شاہ عنایت جیسے عطیم فقراء کو بھی دربار محبوبی میں قبولیت کی سند شاداب چہرے سے پیشی تھی یہ اور بات ہے کہ ولی کامل چہرہ باطنی کو ہی حسن کی معراج سمجھتے تھے، بات دور نکل گئی واپس آتے ہیں 80 کی دہائی کی طرف جب ملک میں پی ٹی وی کا راج تھا لوگوں کے اذہان کو واحد سرکاری چینل نے یر غمال بنایا ہواتھا مگر کسی منفی عمل سے نہیں،متاثر کن فن سے، سورج ڈھلتے ہی ہرسو پی ٹی وی کا سحر پوری قوم کوجکڑ لیتا سڑکیں سنسان ہوجاتیں ڈرامے کے آغاز سے ہی گھروں میں بیسیوں لوگوں کے ہوتے دلوں کی دھڑکن سنائی دے رہی ہوتی سوئی کاگرنا دھماکہ لگتا یہ سالا پی ٹی وی زبردستی کاگھس بیٹھیا تھا مگرایسا خوش قسمت کہ کسی کو اپنے گھر والوں کویرغمال بنانے پر اعتراض نہ ہوتا تھا یہ کیسا جادو تھا تبھی کہتے ہیں فن میں سحر ہے اور فنکارسچے ساحر، ان ساحروں نے تین نسلوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا بعض لکھاریوں کے اس دعوای کی نفی نہیں کی جاسکتی کہ اس کے پیچھے بھی وقت کے طاقت ور حکمرانوں کی چال تھی مگر ان ساحروں نے اپنی قوم کا اخلاق نہیں بگاڑا وہ دور ان کا دور تھا وہ چاہتے تو اس وقت کے ہر نوجواں کی جھولی سنگ ریزوں سے بھری ہوتی اور کوئی کور ہائوس، جناح ہائوس، کسی کی چہار دیواری، کسی کی بھی بہن بیٹی محفوظ نہ ہوتی مگر ہم آج انہیں پاکیزہ لفظوں سے تبھی یاد کرہے ہیں انہوں نے اگلی نسل کو "فن سے محبت” منتقل کی اور شائستہ اقدار سے روشناس کروایا 80 کی دہائی میں اعلی تعلیم سے آراستہ اور برگر گھرانوں سے شہناز شیخ اور مرینہ خان کی جوڑی نے فن کی دنیا میں قدم رکھا تو مختصرسے عرصہ میں ہی ان کے حسن اور فن کی دھوم مچ گئی اور سچی بات یہ ہے کہ جہاں اس دور کے مہذب لکھاری فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین، انور مقصود، نورالہدا شاہ، اصغر ندیم سید، عبدالقادر جونیجو، خیرپور سے شاہد کاظمی،کراچی سے تاج حیدر،اطہر شاہ خان (جیدی)، کمال احمد رضوی، پشاور سے پروفیسر ڈینس آئزک، اعظم اعظم،کوئٹہ سے عاشر عظیم، نے اپنی لازوال تحریروں اور ہدایت کاروں میں شہزاد خلیل،حسین وجمیل سائرہ کاظمی، حیدر امام رضوی، محسن علی، ہارون رند، عبدالکریم بلوچ، علی رضوی، جاذب نظر شخصیت کے مالک ظہیرخان، یاور حیات،سجاد احمد، اقبال لطیف سمیت بہت سے دیگرنے تراشیدہ کرداروں سے اس وقت کی نوجواں نسل کو متاثر کیا، جبکہ اس وقت کے مہان اداکاروں میں راحت کاظمی، بدرخلیل(بدو)، بہروز سبز واری (قباچہ)، دردانہ بٹ، جمشید انصاری،شفیع محمد شاہ، محمود صدیقی، جاوید شیخ، نور محمد لاشاری، شہزادی، محبوب عالم، اطہر شاہ خان (جیدی)، کمال احمد رضوی، ننہا(الف نون)، اظہار قاضی،مہرین الہی، مشی خان،تاج حیدر، مظہرعلی، اور ایک لمبی لائین تھی اور ہے مگر یہ حقیقی اداکار تھے ان کے فن کے نقوش 3 نسلوں کومنتقل ہوے بلکہ ایک صحافی دوست حال ہی میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ انڈیا سےہوکر آئے ہیں وہ بتارہے تھے کہ ہمارے ہاں اتنی انڈیئن فلمیں مقبول نہیں جتنے ہمارے ڈرامے وہاں دیکھے جاتے ہیں بچے اور خواتین تو خاص طور پر ہمارے ڈراموں کے دیوانے ہیں وہ ہمارے ہاں کے چھوٹے موٹے اداکاروں کو بھی جانتےہیں اور ان کوپسند بھی کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے ان اصلی ڈراموں اور اصلی فنکاروں کی بجائے نوجواں نسل کی اکثریت ایک مکار لیڈر کے سحر میں مبتلا ہوکر اپنے قومی ورثہ کی تباہی اور اخلاق باختہ ہوچکی تہذیب و تمدن کا جنازہ نکال دیا اس کمبخت لیڈر نے اور پوری نسل بگاڑ کر رکھ دی خیر اسے چھوڑیں دکھی دل سے یہ جملہ معترضہ اداہوئے، آتے ہیں اصل مدعاء کی طرف، شہناز شیخ اور مرینہ خان بوڑھی ہوگئیں اور بڑھاپے نے حسین تریں چہروں کوکھنڈرات میں بدل دیا مگر ان کی جوانی کے سحر نے ہمیں آج بھی جکڑا ہوا ہے اور ہم بھلائے بھی بھول نہیں پارہے وہ دن، وہ فن…