کراچی (نمائندہ خصوصی)پاکستان کی برآمدات میں مسلسل 8 مہینے سے تنزلی جاری ہے، جو اپریل میں سالانہ بنیادوں پر 26.68 فیصد سکڑ کر 2 ارب 12 کروڑ ڈالر رہ گئیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 10 مہینے (جولائی تا اپریل) کے دوران برآمدات 11.71 فیصد گر کر 23 ارب 17 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 26 ارب 24 کروڑ ڈالر تھیں۔برآمدات میں کمی کی بنیادی وجوہات میں اندرونی و بیرونی عوامل ہیں، جن کے سبب خاص طور پر ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ اپریل میں درآمدات بھی 55.67 فیصد کمی کے بعد 2 ارب 95 کروڑ ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ برس اسی مہینے میں 6 ارب 66 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں، جولائی تا اپریل کے دوران درآمدات 28.44 فیصد کم ہونے کے بعد 46 ارب 88 کروڑ ڈالر کی سطح پر آ گئیں جو گزشتہ برس اسی عرصے میں 65 ارب 51 کروڑ ڈالر تھیں۔مالی سال 2023 میں جولائی تا اپریل کے دوران تجارتی خسارے میں 39.62 فیصد تنزلی ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ برس کے 39 ارب 27 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 23 ارب 71 کروڑ ڈالر رہ گیا، اپریل میں سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ 77.98 فیصد گر کر 82 کروڑ کی سطح پر آگیا۔برآمدات میں منفی نمو رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں شروع ہوئی جبکہ اگست میں معمولی اضافہ دیکھا گیا تھا، برآمدات میں کمی ایک تشویشناک عنصر ہے، جو ملک کے بیرونی کھاتے میں توازن پیدا کرنے میں مسائل پیدا کرے گا۔ٹیکسٹائل اور کپڑے کا ملکی برآمدات میں 60 فیصد سے زائد حصہ ہے، اس میں کمی سے حکومت کے لیے برآمدی ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔برآمدکنندگان نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی حکمت عملی کے فقدان اور مثر طریقے سے ترجیح دینے میں ناکامی کے باعث ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی آرہی ہے۔انہوںنے کہاکہ برآمدات میں تنزلی کی بنیادی وجہ میں سرمائے کی قلت، ریفنڈز کا پھنسنا جیسا کے سیلز ٹیکس، مخر سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، مقامی ٹیکسز اور لیویز پر ڈیوٹی ڈرا بیک، ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کا فنڈ اور ڈیوٹی ڈرا بیک شامل ہے۔انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے ریفنڈ کا تیز تر نظام ارادے کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے، اب ریفنڈز میں 72 گھنٹے کے بجائے 3 سے 5 مہینے لگتے ہیں، برآمد کنندہ نے مزید کہا کہ شعبے کو مالیاتی اور توانائی کی لاگت میں نمایاں اضافے کا بھی سامنا ہے۔