اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی)پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ رواں برس کےتیسرے مہینے بھی جاری رہا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال مارچ میں مہنگائی کی شرح میں 35.37 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو گزشتہ پچاس سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔شماریات بیورو کے ایک ترجمان نے کہا کہ مہنگائی کی یہ شرح 1970 کی دہائی میں ماہانہ ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع کیے جانے کے بعد سے بیورو کی طرف سے ریکارڈ کی گیا سب سے زیادہ سالانہ اضافہ ہے۔مارچ میں ریکارڈ کی گئی مہنگائی کی شرح نے فروری میں مہنگائی کی 31.5 فیصد شرح کو بلند شرح کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کھانے، مشروبات اور ٹرانسپورٹ کی قیمتیں 50 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔پاکستانی معیشت کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روپے کی قدر میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بھی اب صرف چار ہفتوں تک کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے باقی بچے ہیں۔پاکستانی معیشت کو پچھلے سال اگست میں آنے والےتباہ کن سیلابوں کی وجہ سے بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا۔پاکستانی حکومت رواں ماہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گیافراط زر کی شرح میں اضافہ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق فروری کے مقابلے میں مارچ کے مہینے میں قمیتوں میں 3.72 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق روپے کی قدر میں مسلسل کمی، حکومت کی جانب سے قیمتوں پر رعایتوں کے خاتمے اور ٹیکسوں میں اضافے کے بعد افراط زر کی شرح میں حالیہ اضافہ متوقع تھا۔شماریات بیورو نے کے مطابق مارچ میں خوراک کی قیمتوں میں سالانہ افراط زر کی شرح شہری اور دیہی علاقوں کے لیے بالترتیب 47.1 فیصد اور 50.2 فیصد رہی۔ پاکستان کا مرکزی بینک بنیادی سطح پر افراط زر میں اس اضافے کو تشویش کا باعث قرار دے چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق آنے والے دنوں میں مہنگائی 38 فیصد تک بڑھ سکتی ہے جبکہ مہنگائی کا طوفان ملک کا سابقہ بلند ترین ریکارڈ بھی توڑ سکتا ہے۔مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی مہنگائی کی توقعات پر قابو نہیں پا سکی، اس ضمن میں وزارت خزانہ نے کہا کہ اپریل 2023 کے لیے افراط زر 36 فیصد سے 38 فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے۔دسمبر 1973 میں پاکستان میں مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح 37.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جسے مہنگائی کی حالیہ لہر نے جلد ہی پیچھے چھوڑ دیا ہے، گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 35.4 فیصد تھی، رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ مرکزی بینک کی پالیسیاں بھی مدد نہیں کر رہیں۔وزارت خزانہ کے اکنامک ایڈوائزر ونگ کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک نے شرح سود میں ریکارڈ 21 فیصد اضافہ کر دیا ہے، مہنگائی کی شرح سستی سطح پر آنے میں وقت لگے گا، اگلے مالی سال کے لیے حکومت نے اوسطاً 20 فیصد افراط زر کی شرح کا تخمینہ لگایا ہے۔وزارت خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی کامیابی سے تکمیل یہ پروگرام زیادہ سرمائے کی آمد کو راغب کرنے، شرح مبادلہ میں مزید استحکام اور افراط زر کے دباﺅ کو کم کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔رپورٹ کے مطابق وزارت خوراک کے تخمینے کے مطابق اس سال 29 ملین میٹرک ٹن گندم دستیاب ہوگی۔