رنگ اسیر کی تلاش میں راحیلہ بھابھی کہاں کہاں نہ بھٹکی تھیں۔ کبھی ہندوستان کا رخ کیا تو کبھی فرانس اور اٹلی کے دورے کئے۔ پھر کبھی انگلستان کا رخ کیا تو کبھی سعودی عرب کا، کبھی عراق کا، تو کبھی مصر کا اور کبھی ایران کا، مگر رنگ اسیر کو ملنا تھا، نہ ملا۔
رنگ اسیر کو تو جیسے کہیں ملنا ہی نہیں تھا، اور راحیلہ بھابھی تھیں کہ چپکے ہی نہیں بیٹھتی تھیں۔ ایک طرح سے اُن کی ساری کی ساری جدوجہد بھاڑ جھو نکنے کے مترادف ہو کر رہ گئی تھی۔
بارہا میں نے راحیلہ بھابھی سے درخواست کی کہ وہ کسی ٹھوس اطلاع اور یقین دہانی کے بغیر کہیں نہ جائیں، مگر وہ کہاں ماننے والی تھیں۔ اُن پر تو جیسے رنگ اسیر کو تلاش کرنے کا جنون سوار ہو گیا تھا۔
دوسری طرف رنگ اسیر کی شخصیت کا رعب و دبدبہ یار لوگوں پر ابھی تک اتنا حاوی تھا کہ وہ راحیلہ بھابھی کو کھل کر سمجھا بھی نہیں سکتے تھے کہ یوں ہندوستان مت جائیے، وہاں کے حالات اتنے بہتر نہیں ہیں اور پھر پاکستانیوں کے لیے تو خاص طور پر مثالی نہیں ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر انکوائریز کُھل جاتی ہیں۔
احباب شاید یہی خیال کرتے تھے کہ یہ محض راحیلہ بھابھی کی ہی نہیں، رنگ اسیر کی خواہش بھی ہے کہ اُسے وہاں، وہاں جا کر کھوجا جاۓ، جہاں، جہاں کا ذکر راحیلہ بھابھی کرتی ہیں۔
دراصل ایک زمانہ اس بات سے آگاہ تھا، (خاص طور پر رنگ اسیر کے احباب کا حلقہ) کہ رنگ اسیر جتنا بڑا مصور تھا، اتنا ہی بڑا سیاح بھی تھا۔
اُس کی سیاحت زیادہ تر تصاویر کی نمائشوں اور نامی گرامی مصوروں اور دیگر ادبی مشاہیر سے ملاقاتوں کے گرد گھومتی تھی۔
اسیر رنگ کو اس کے احباب انانی٘ت پسند گردانتے تھے، مگر اس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا تھا۔ ایک میں ہی تھا جو اس کا پرانا اکلوتا گہرا دوست ہونے کے ناطے اسے کبھی کبھار ٹوکنے کی جرأت کر سکتا تھا، مگر میری بھی وہ کوئی بات کہاں فراخ دلی یا خوش دلی سے سنتا تھا۔ بےدلی سے سُننا اور پھر ہاں ہوں میں ٹال دینا اٌس کا وتیرہ تھا۔ میرے زیادہ زور دینے پر اور تنبیہی انداز پر کہتا "یار اگر میں انا برست ہوتا تو اتنے ڈھیر سارے ادیب، مصور اور فنکار میرے حلقہ احباب میں شامل کبھی شامِل نہ ہوتے”۔
وہ اکثر کہتا کہ وہ ایک رنگ ہے اور جب وہ اپنی پینٹنگز پر کام کر رہا ہوتا تھا ہے تو رنگ پکار پکار کر اسے کہتے ہیں کہ وہ انہیں منتخب کرے اپنے کام کے لئے۔
کہا جاتا ہے کہ کوئی چٹھی، کوئی رقعہ یا خط ایسا آیا کہ أس کے مندرجات پڑھتے ہی رنگ اسیر چِلا اُٹھا، وہ کسی جوہڑ کا کیڑا نہیں ہے کہ کسی تالاب کے کنارے پر پایا جاۓ۔
اُس نے یہ بھی کہا کہ وہ تو منہ٘ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہٌوا تھا۔
کہتے ہیں رنگ اسیر غُص٘ے میں بے قابو ہو کر جو گھر سے نکلا تو لوٹ کر کبھی نہ آیا۔
اب راحیلہ بھابھی تھیں کہ شہروں شہروں اور مُلکوں مُلکوں جاتیں اور رنگ اسیر کو کھوجتی پھرتیں۔
وہ کبھی ہندوستان جاتیں تو کبھی انگلستان، کبھی کسی دیس، تو کبھی کسی دیس، غرَض جہاں کا خیال آتا رنگ اسیر کے تعلُق سے، سیاحت کہ نکگ کھڑی ہوتیں۔ رنگ اسیر کے سبھی دوست بس ہَکا بکا، ایک دوسرے کا مُن٘ہ تکا کرتے۔
دوسرے دوست تو خیر کیا پوچھتے،
میں ہی کچھ ہمت کر کے وہاں جانے کی وجہ تسمیہ دریافت کرتا تو کہا جاتا، وہیں تو اُن کے آباؤ اجداد عراق یا ایران سے آۓ تھے۔ پہلا پڑاؤ شمالی ہندوستان کی ریاست اُتر پردیش کا کوئی شہر تھا۔ شہر کے نام سے تو وہ خود کبھی آگاہ نہیں رہی تھیں، مگر ادھوری معلومات کے سہارے ہی نکل کھڑی ہوتیں۔
خیر ایران جانے کی وجہ تسمیہ بھی یہی تھی کہ خاندانٍ رنگ اسیر کا تعلق کسی زمانے میں ایران سے بہت گہرا رہا تھا اور ممکن ہے وہا جا کر پتا کرنے سے کوئی خیر کی خبر ملے۔
ایک بار جب میں نے فرانس اور اٹلی جانے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگیں فرانسیسی ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ پیرس اور خاص طور پر آئفل ٹاور سے تو جیسے عشق کرتے تھے، کہتے تھیں، اس عمارت سے دُنیا دیکھنے کا جو لُطف ہے، وہ دنیا میں کہیں اور می٘سر نہیں ہے۔ ایڈمنڈ امن جین (Edmond Aman- Jean)
کے کام کے تو جیسے دیوانے تھے. پھر اٹلی کے لیونارڈو ڈاو نچی (Leonardo Da Vinci) کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے، اس لیۓ وہاں جا کر تلاش کرنا بھی از بس ضروری ہے، وہ زور دے کر کہتیں۔
جہاں تک اپنے ملک کا تعلق ہے تو وہ کونسا شہر ہوگا اِس ملک کا کہ جہاں رنگ اسیر کی تلاش نہ ہوئی تھی مگر کچھ حاصل نہ ہو سکا تھا کہ اسیر کی کہیں پرچھائیں تک دکھائی نہ دی تھی۔
ایک بار یہ بھی کہا گیا تھا کہ رنگ اسیر گھر لوٹ آیا ہے، مگر جب رنگ اسیر کے احباب اُسے دیکھنے گئے تو وہ پہچانا نہ جا سکا، خود راحیلہ بھابھی بھی متعجب ہی رہیں، اُن کا کہنا تھا کہ رنگ اسیر کا یہ رنگ تو انہوں نے کبھی نہ دیکھا تھا کہ نہ تو وہ صورت، نہ وہ لہجہ اور نہ ویسی آواز، صرف لباس کی مشابہت تو پہچان کے لئے ناکافی ہوتی ہے۔
القصہ، یہ بتیجہ اخذ کیا گیا کہ وہ رنگ اسیر نہیں تھا، وہ کوئی اور تھا۔
اس دوران راچیلہ بھابھی مکان کو تالا لگا کر اپنے میکے، دوسرے شہر جا بسی تھیں۔ یہ اطلاع بھی آئی کہ والدین کے سمجھانے اور زور دینے پر وہ کسی سے عقَدِ ثانی پر رضامند ہو گئی ہیں، مگر یہ باتیں سچ ثابت نہ ہوئیں کہ چند ہی ماہ بعد راحیلہ بھابھی دوبارہ اسی شہر لوٹ آییں اور بے آباد مکان ایک بار پھر آباد ہو گیا۔ اُن کے میکے کے لوگ، یعنی قریبی عزیزو اقارب کچھ تو اُن قے ہمراہ رہنے لگے تھے اور کچھ وقتأ فوقتأ آتے رہتے تھے۔
اور پھر ایک روز یہ خبر بھی آ گئ کہ رنگ اسیر لوٹ أیا ہے
ہم چند دوست بھاگے، بھاگے اس کے گھر پہنچے کہ زمانے کا دستور بھی یہی بنتا تھا۔ ہماری کیفیت سمجھی جا سکتی تھی کہ ہم چار برس کے بعد اپنے بچھڑے دوست سے ملنے والے تھے۔
رنگ اسیر کی اہلیہ یعنی راحیلہ بیگم، جنہیں ہم سب دوست راحیلہ بھابھی کہتے تھے، اپنے گھر کے دروازے پر ہی مل گئیں۔
ہماری توقع کے برعکس وہ کچھ اداس سی لگ رہی تھیں۔ میں نے بے تابی سے پوچھا "راحیلہ بھابھی کیا واقعی رنگ اسیر لوٹ آیا ہے”
انہوں اثبات میں سر ہلایا اور نحیف سی آواز میں بولیں
"کوئ انہیں رہنے بھی تو دے”
"کیا مطلب” کم وبیش ہر دوست چیخا
"سب نے انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا ہے اور یہاں سے جانے کا کہا ہے”، وہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئیں۔ پھر انہوں نے ڈراینگ روم کیطرف اشارہ کیا گویا وہاں رنگ اسیر موجود تھا۔
ہم سب اس طرف لپکے۔ ڈراینگ روم میں خاصے لوگ موجود تھے۔ کچھ کرسیوں پر براجمان تھے، تو کچھ صوفوں پر۔ ہمارے حصے میں خالی جگہ آئ۔ ہم نے کھڑے کھڑے ہی رنگ اسیر کو جھک کر پہچاننے کی کوشش کی۔ اظہار نے بےصبری سے آواز دے ڈالی
"رنگ اسیر صاحب، ذرا ادھر تو دیکھیے”
رنگ اسیر، راحیلہ بھابھی کے رشتہ داروں میں گھرا بیٹھا تھا، نہ تو وہ آواز سن سکا اور نہ ہی ہمیں ٹھیک طرح سے نظر أ سکا۔
اتنی دیر میں راحیلہ بھابھی أگیئں اور پوچھنے لگیں کہ ہم لوگوں کی ملاقات ہوئ۔ ظاہر ہے ہم نے نفی میں جواب دیا۔
میں نے بے تابی سے پوچھا وہ حضرت گھر کیسے أۓ؟
وہ بولیں وہ خود لائ تھیں۔
ہیں، کیسے، کہاں سے ملے تھے۔
وہ قدرے توقف سے بولیں
"وہ قاسم پارک میں دکھائ دیے تھے مجھے، میں دیکھتے ہی پہچان گئ۔ بس ذرا شیو بڑھی ہوئ تھی اور پیروں میں کوئ چپل وغیرہ نہیں پہنی ہوئ تھی۔ قاسم پارک کی ریپیوٹیشن ٹھیک نہیں نا، میں نے سوچا پھر کوئ انہونی ہی نہ ہو جاۓ، ضد کر کے بڑی مشکل سے لائ ہوں، اور یہاں کے لوگ ہیں کہ انہیں واپس بھیجنے پر تلے ہیں۔”