جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی معروف پاکستانی شاعرہ اور افسانہ نگار کومل جوئیہ صاحبہ 9 نومبر 1983 میں کبیروالہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام شازیہ علی اور ان کا جوئیہ قبیلے سے تعلق ہے ، کومل تخلص اور قلمی نام کومل جوئیہ ہے۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں 1998 میں شاعری شروع کی اس کے علاوہ افسانہ نگاری بھی کرتی ہیں ۔ شادی کے بعد وہ گوجرانوالہ منتقل ہو گئیں پیشے کے لحاظ سے وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کی شاعری میں ہجر و فراق اور معصومیت کم نازو انداز ، شوخی اور بےباکی زیادہ ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ملکی اور معاشرتی و سماجی مسائل کو بھی موضوع سخن بناتی ہیں ۔ ان کی شاعری نوجوان نسل میں زیادہ مقبول ہے ۔ کومل صاحبہ کا پہلا شعری مجموعہ ” ایسا لگتا ہے تجھ کو کھو دوں گی” 2013 میں شائع ہو چکا ہے جبکہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ” ہاتھ پہ آئی دستک” حال ہی میں شائع ہو چکا ہے۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبز موسم کو بھی تحریرِ خزاں بولتے ہیں
آج کل پیڑ اداسی کی زباں بولتے ہیں
بعض اوقات مکینوں کی خموشی سے ڈری
کھڑکیاں شور مچاتی ہیں ، مکاں بولتے ہیں
کون کرتا ہے ترے بعد ترے جیسا سخن
ہم ترے بعد کسی سے بھی کہاں بولتے ہیں
اونچی آواز میں عادت تو نہیں بولنے کی
ضبط جب توڑ دیا جائے تو ہاں ، بولتے ہیں
جس جگہ مان رکھا جائے خطابت کا اے دوست
ہم انا زاد بہت کھل کے وہاں بولتے ہیں
کیا غلط کرتے ہیں ہم فرطِ عقیدت سے کبھی
تیری آنکھوں کو اگر سارا جہاں بولتے ہیں
اس قدر جھوٹ ، ملاوٹ ہے مری بستی میں
دھول ملبے کی اڑی ہو تو دھواں بولتے ہیں
حَسْبِیَ الِّلہَ ، نہیں کہتا کوئی مدت سے
اب بھی ٹھوکر ہمیں لگتی ہے تو "ماں” بولتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعار
تم نے دیکھے نہیں فرصت سے خدوخال مرے
جب میں تصویر میں ہوتی ہوں بہت بولتی ہوں
لوگ محروم بصارت ہیں تری بستی کے
اور ہم خواب ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں
اپنی مرضی ہوگی ” کومل ” آئے گی
نیند کسی کے باپ کی تھوڑی ہے
کومل جوئیہ