پاکستان کی نامور ادیبہ، شاعرہ، نقاد، افسانہ نگار اور سفر نامہ نگار سیدہ عابدہ تقی صاحبہ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ان کے والد صاحب بھی شاعر اور ان کے دادا جان بھی شاعر رہے ہیں عابدہ کا تعلق اسلام آباد سے ہے لیکن ان کی ولادت ان کے ننہیال کے گھر راولپنڈی میں ہوئی ۔ ان کے والد صاحب کا نام سید تقی حسین اور والدہ محترمہ کا نام رابعہ خاتون ہے ۔ عابدہ اپنے 7 بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ وہ 4 بہنیں اور 3 بھائی ہیں۔ ان کا تعلق سادات نقوی البھاکری اور علمی و ادبی خاندان سے ہے ۔ عابدہ کے والد نے اردو میں نعت، منقبت اور سلام پر مبنی شاعری کی ہے پیشے کے لحاظ سے وہ پاکستان ایئر فورس کے فلائنگ ونگ سے وابستہ رہے ہیں جبکہ ان کے دادا جان سید باغ حسین شاہ نقوی کربلائی نے فارسی اور پنجابی میں مدحت رسول، سلام اور منقبت پر مبنی شاعری کی ہے۔ عابدہ تقی صاحبہ کی مادری زبان پنجابی ہے ۔ انہیں اردو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے جبکہ وہ عربی اور فارسی زبانیں بھی جانتی ہیں۔ انہوں نے ابتدائی و میٹرک اور سیکنڈری تعلیمات کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے Msc Geography کیا ہے۔ عابدہ نے اپنے کالج لائف کے زمانے سے شاعری شروع کی۔ معروف شاعر نیساں اکبر آبادی شاعری میں ان کے استاد رہے ہیں ۔ عابدہ تقی کی شاعری حمد، نعت، سلام ، منقبت ، غزل اور نظمیہ اصناف پر مبنی ہے ان کی شاعری میں سماجی ، معاشی و معاشرتی مسائل پر نظر ہے اور قلبی واردات بھی شامل ہے ان کو اپنی ذات کا دکھ بھی ہے تو زمانے کا غم بھی ہے ان کی شاعری میں خوف، مایوسی، ہجر و فراق، احساس محرومی، کسی انہونی کا خوف اور شکوہ شامل ہے تو کہیں وہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں لیکن ان کی شاعری میں وصل کا احوال نہیں ملتا، مجموعی طور پر ان کی شاعری متاثر کن اور دلپذیر ہے جو قاری اور سامع کو اپنی طرف متوجہ کرنے پر مجبور کرنے کی قوت رکھتی ہے۔عابدہ تقی ایک بھرپور اور فعال علمی و ادبی زندگی گزار رہی ہیں ۔ انہیں حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کی پہلی خاتون سیکریٹری مقرر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے وہ 2011 سے 2013 تک اس عہدے پر فائز رہی ہیں وہ اسلام آباد ادبی فورم کی بھی 2 سال سیکریٹری رہی ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کی جانب سے ایم فل کی ایک طالبہ مدیحہ فاطمہ نے ” عابدہ تقی کی ادبی خدمات” کے عنوان سے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمد وسیم کی نگرانی میں تھیسس مکمل کیا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک نجی ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ انہوں نے تنقید و افسانہ نگاری کے علاہ ایک سفر نامہ بھی لکھا ہے جو کہ ایران ، عراق اور شام کے مقامات مقدسہ کی زیارت و روداد اور مشاہدات پر مبنی ہے۔ عابدہ نے ایران ، عراق اور شام کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور کویت کی بھی سیاحت کی ہے۔ عابدہ کی اب تک شائع ہونے والی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)دوسرا فرشتہ-2005
۔ (2)فصیل خواب سے آگے-2003
۔ (3)دستک باب ِعلم پر-2002
۔ (4)منبر سلونی کی اذاں-1999
عابدہ تقی کی شاعری سے انتخاب
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوئے تھے خوابوں کے معمار بھی اکیلے ہی
تو اب گرائیں یہ میناربھی اکیلے ہی
کسی کی پور پہ رکنے کی آس میں آنسو
ڈھلک گیا سرِ _رخسار بھی اکیلے ہی
الجھ رہا تھا تلاطم سے کیسے کچا گھڑا
گواہ تھا کوئی اُس پار بھی اکیلے ہی
یہ عشق شامل ِ دستورِ قصر ہو کہ نہ ہو
ہے سرخرو تہہِ دیوار بھی اکیلے ہی
جب ایک ضرب ہی ٹھہری ہے جیت کی منصف
تو رن میں جائیں گے اس بار بھی اکیلے ہی
یہ کہہ کے اٹھ گئے چوپال سے پرانے لوگ
سنیں گے اب تو سماچاربھی اکیلے ہی
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا سے خوشبو کا کوئی پیام آیا نہیں
دیے جلائے مگر خوش خرام آیا نہیں
اسی کا متن تب و جاں کا کر رہا ہے حصار
وہ ایک خط جو ابھی میرے نام آیا نہیں
ابھی چاند کی خاطر دریچے کھولنا کیا
ابھی تو شام ہے ، ماہِ تمام آیا نہیں
ہمارے ہاتھ بھی در کھٹکھٹانا چاہتے ہیں
جو انتخاب ہو دل کا وہ باب آیا نہیں
دلوں کے سودے میں نقصان ہو بھی سکتا ہے
شعور تھا تو سہی میرے کام آیا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کی کھوئی رونق پلٹ آئی ہے تو اب
غم ستانے لگا ہے شہر کی ویرانی کا
ان دنوں زیست کا اطراف میں ہے ایک ہی ڈھب
خوف انہونی کا دھڑکا کسی انجانی کا
ایک خطبے سے بدل آئی ہوں طاقت کا نصاب
تخت کو جیت کے زندان سے آئی ہوں
مرا ہم قدم کسی چاندنی کی جلو میں تھا
اسے کیا خبر کہ میں چل رہی تھی غبار میں
دشت احساس میں اڑتی ہے اسی درد کی دھول
جانے والے نے پلٹ کے بھی نہ دیکھا ہم کو
یک بہ یک رونق کدوں کے درمیاں سے کٹ گئے
ایک اس سے کٹ کے ہم سارے جہاں سے کٹ گئے
یاد رکھتا کون ایسے میں کسی عنوان کو
مرکزی کردار ہی جب داستاں سے کٹ گئے
گھر کے تمام بچوں میں تھوڑی بڑی تھی میں
ورثے میں دکھ تھے سو مجھے حصہ بڑا ملا