نئی دہلی( نمائندہ خصوصی ) آزادی پسند کشمیری رہنما محمد افضل گورو کی پھانسی کی نگرانی کرنے والے تہاڑ جیل کے سابق لاء آفیسر سنیل گپتا نے کہا ہے کہ افضل گورو بہادری سے پھانسی کے پھندے پر چڑھ گیا اور ان کے چہرے پر کوئی خوف نہیں تھا۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارت نے تحریکِ آزادیِ کشمیر میں کردار ادا کرنے پر محمد افضل گورو کو 9 فروری 2013ء کو اور محمد مقبول بٹ کو 11 فروری 1984ء کو نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی تھی ۔ ان کی میتیں جیل کے احاطے میں ہی دفن ہیں۔سنیل گپتا نے جن کے دور میں تہاڑ جیل میں آٹھ افراد کو پھانسی دی گئی ، نئی دہلی میں ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ پھانسی سے قبل افضل گورو نے اُنہیں بتایا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ انہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایمانداری سے کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ دہشت گرد ہوتے تو اپنے بیٹے کو میڈیکل کی تعلیم نہ دیتے۔ گپتا نے کہا کہ افضل کا بیٹا ایم بی بی ایس کر رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ پھانسی سے متعلق قوانین بہت واضح ہیں۔صدر پرنب مکھرجی کی طرف سے رحم کی اپیل مسترد کئے جانے اور پھانسی کی تاریخ کے درمیان جیل حکام کے پاس معمول کے مطابق دو ہفتے نہیں بلکہ صرف چھ دن تھے۔ تاہم افضل کے اہل خانہ کو مطلع کرنے اور آخری ملاقات کی اجازت دینے کے لیے چھ دن یقینی طور پر کافی تھے ، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ پھانسی پر لٹکائے جانے سے پہلے افضل نے اپنے اہل خانہ کو ایک خط لکھا جس میں لکھا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس مقام کے لیے منتخب کیا۔ میں تمام مومنین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم سب کو حق و صداقت کے ساتھ رہنا چاہیے اور ہمارا انجام بھی حق و صداقت کے راستے پر ہونا چاہیے۔ میری اہل خانہ سے درخواست ہے کہ وہ میرے انجام پر غمگین ہونے کی بجائے میرے اس مقام کا احترام کریں اور میرے بیٹے کی تعلیم جاری رکھیں۔گپتا نے کہا کہ افضل کا ہاتھ سے لکھا ہوا خط پھانسی کے دو دن بعد اس کے گھر والوں کو پہنچا۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈیوٹی کے اوقات کے بعد گھر پہنچنے پر جب میں نے اپنے گھر والوں کو افضل کے آخری اوقات کے بارے میں بتایا تو وہ سب رو پڑے۔