جنیوا(نمائندہ خصوصی)
جنیوا میں ایک سیمینار میں مقررین نے انسانی زندگی پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے خطرے پڑنے والی کمزور آبادیوں کو بچانے کے لیے اجتماعی ردعمل کی اشد ضرورت ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سیمینار میں الطاف حسین وانی ، حسن بنا ، Leon Sue ، عارف حسین کاظمی سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ماہرین، ماہرینِ تعلیم، حقوق کے کارکنوں اور سفارت کاروں نے شرکت اور خطاب کیا۔
مقررین نے موسمیاتی بحران سے نمٹنے اور پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے عالمی روڈ میپ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانوں کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے کشمیریوں کی زندگیوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کیا ہے۔مقررین نے کہا کہ اگرچہ بہت سے خطوں میں موسمیاتی تبدیلی تنازعات کا محرک ہو سکتی ہے ، لیکن جموں کشمیر کے معاملے میں تنازع خود ماحولیاتی تبدیلی کے محرک کے طور پر کام کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں کو جو گلوبل وارمنگ کے براہ راست ذمہ دار ہیں ، موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ملکوں کی مدد کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آگے آنا چاہیے تاکہ وہ آفات اور موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو بڑھا سکیں۔
مقررین نے کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجیوں کے ارتکاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی لحاظ سے نازک خطے میں سب سے زیادہ فوجی تعیناتی ہے اور یہ ایک ایسا بڑا عنصر ہے جو مقامی رہائش گاہوں کے لیے سنگین ماحولیاتی مسائل کا باعث ہے۔
اُنہوں نے کہاکہ متنازعہ خطے میں بھاری توپ خانے سے لیس آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی اہلکار ماحولیات کے لیے ایک بڑا چلینج ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ تیزی سے پگھلتے ہوئے سیاچن گلیشیئر پر فوجی سرگرمیاں قدرتی ماحولیاتی نظام کو سخت متاثر کر رہی ہیں جبکہ لائن آف کنٹرول بھی اسی مسئلے سے دوچار ہے۔
مقررین نے کہا کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں، مؤثر اقدامات اور وسیع تر علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہاکہ برادریوں ، ملکوں اور قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اعتماد کا رشتہ جموں کشمیر جیسے مسائل کے حل سے قائم ہوسکتا ہے۔