سرینگر(نیوز ڈیسک )بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بھارت کی کارپوریٹ کمپنیاں”ایسٹ انڈیا کمپنی”کی طرح کام کر رہی ہیں۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیرکے عوام کا کہناہے کہ ایک بھارتی تعمیراتی کمپنی غیر سائنسی طریقے سے بلاسٹنگ، ڈرلنگ اور فضلہ تلفی کا کام کررہی ہے جس سے خطے کے نباتات، حیوانات اور ماحولیات کے نازک نظام کو نااقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔پن بجلی منصوبے کے قریب رہنے والے مقامی افراد نے املاک کو نقصان پہنچنے کے شواہد پیش کیے جن میں مکانات اور دکانیں شامل ہیں، جبکہ لاپرواہی سے بلاسٹنگ اور فضلہ پھینکنے سے مکینوں میں سانس کی بیماری اور صحت کے دیگر مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے مقامی سطح پر احتجاجی مظاہروں سے مسئلہ ابھر کر سامنے آیا جس کے مطابق میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ(ایم ای آئی ایل)اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور معاہدے کے باوجود مقامی لوگوں کو اس منصوبے میں ملازمت نہیں دی گئی۔ذرائع کے مطابق بھارتی کمپنیوں کے ذریعے انجام دیئے جانے والے یہ بڑے منصوبے بنیادی طور پر غیر مقامی افراد کو فائدہ پہنچاتے ہیں جبکہ کشمیری جو پہلے ہی اپنی بقا ء کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، مزید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں، ترقیاتی منصوبے مقامی لوگوں کے استحصال کے بجائے ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ہونے چاہئیں۔ بھارتی حکومت کی ترجیح غیر مقامی افراد کی آبادکاری اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں افواج کی مستقل تعیناتی ہی رہی ہے، بھارتی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ دفعہ370اور 35Aکی منسوخی سے کشمیریوں کو فائدہ ہوا ہے لیکن زمینی حقائق اس بیانیے کے بالکل برعکس ہیں۔ میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ حال ہی میں متنازعہ انتخابی بانڈز سکیم میں 586کروڑ روپے بی جے پی کو عطیہ دینے والے سب سے بڑے ڈونرز میں سے ایک ہے۔850میگاواٹ کے رٹل پن بجلی منصوبے کے موجودہ متنازعہ ڈیزائن کے تحت تعمیر ہونے کی صورت میں دریائے چناب کا پانی ہیڈ مرالہ پر 40فیصد کم ہو جائے گا جو پاکستان کے وسطی پنجاب میں آبپاشی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔واضح رہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کے مطالبے پر ثالثی عدالت قائم کی ہے۔