سرینگر:(مانٹرنگ ڈیسک )غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں نام نہاد اسمبلی انتخابات کی تیاری جاری ہے جو 2019میں علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے پہلے انتخابات ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق تین مرحلوں میں ہونے والے انتخابات90نشستوں پر ہوں گے جن میں وادی کشمیر میں 47اور جموں خطے میں 43 نشستیں ہیں۔بی بی سی کے عاقب جاوید اور زویا متین نے انتخابات کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سے جموں اور کشمیر دونوں خطوں میں بڑھتی ہوئی پریشانی کا سامنا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک قابل ذکر تبدیلی یہ آئی ہے کہ ایسے انتخابات جن کا تاریخی طور پر بائیکاٹ کیاجاتا تھا، اب بی جے پی کی پالیسیوں کو چیلنج کرنے اور علاقے کے سیاسی معاملات پر مقامی کنٹرول کو دوبارہ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جارہا ہے۔دو اہم مقامی جماعتوں محبوبہ مفتی کی قیادت والی پی ڈی پی اور عمر عبداللہ کی سربراہی میں نیشنل کانفرنس کواہم کھلاڑی ماناجارہا ہے۔مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی میدان میں ہے لیکن لوگ اس پارٹی سے زیادہ پرامید نہیں ہیںجس کا ماضی میں جموں خطے میں خاصا اثرونفوذ تھا لیکن وادی میں ہمیشہ سیاسی طورپر کمزور رہی ۔ماہر سیاسیات نور احمد بابا نے بتایا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جمہوریت اور آزادی اظہاررائے کا فقدان ہے اور بہت سے سیاسی کارکن جیلوں میں نظربند ہیں۔انتخابات لوگوں کو درپیش چیلنجز کے حق میں یا خلاف فیصلہ دینے کا ایک ذریعہ ہیں۔بی بی سی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شخص کے حوالے سے بتایا کہ انتخابات کاتنازعہ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں علاقے کا ریاستی درجہ اورخصوصی حیثیت بحال کرنے کا وعدہ کررہی ہیں سوائے بی جے پی کے جو خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے خلاف ہے۔2014کے آخری انتخابات میں بی جے پی نے جموں میں کلین سویپ کرنے کے بعد پی ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی اور اختلافات کے بعد یہ اتحاد 2018میں ٹوٹ گیا۔رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ بی جے پی کے بلند وبانگ دعوئوں کے باوجود بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بنیادی ڈھانچے کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے علاقے کو نظرانداز کرنے کا شکوہ کررہے ہیں۔