سرینگر ( کے ایم ایس)
چودہ سال گزر جانے کے باوجود شوپیاں میں قابض بھارتی فورسز کے ہاتھوں عصمت دری اور قتل کا شکار بننے والی دو خواتین نیلوفر اور آسیہ کے اہلخانہ انصاف کے منتظر ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے مئی 2009ء میں آسیہ اور نیلوفر کو اغواء کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا اور بعد میں دوران حراست قتل کردیا تھا۔ ان کی لاشیں 30 مئی کو ایک ندی سے ملی تھیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ شوپیاں عصمت دری اور قتل کا واقعہ مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی بربریت کی ایک واضح مثال ہے اور یہ واقعہ بھارت کی طرف سے ادارہ جاتی اور منظم تشدد کا ثبوت ہے ۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ بھارتی فوجی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے کشمیری خواتین کو ہراساں کررہے ہیں ، انہیں تشدد اور عصمت دری کا نشانہ بناتے ہیں۔مقبوضہ جموں کشمیر میں 1990ء کے بعد سے بھارتی فوجیوں کی طرف سے زیادتی ، اجتماعی عصمت دری اور بدسلوکی کے 11 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ بھارتی فوجیوں نے تحریک آزادی میں خواتین کے کردار کی وجہ سے ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ کشمیری خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں کیونکہ بھارت کشمیری خواتین کی عصمت دری کو مقبوضہ جموں کشمیر میں ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو ہراساں کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کے لیے عصمت دری کو ایک فوجی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو مقبوضہ جموں کشمیر میں جنسی تشدد کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرنے سے روکے اور علاقے میں گھنائونے جرائم پربھارت کے خلاف کارروائی کرے۔
دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر وائس چیئرمین غلام احمد گلزار نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں آسیہ اور نیلوفر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے شوپیاں میں عصمت دری اور دوہرے قتل کے سانحے کو جموں کشمیر کے عوام کے اجتماعی ضمیر پر سنگین حملہ قرار دیا۔بیان میں کہا گیا کہ شوپیاں سانحے نے وادی کشمیر کے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔