سرینگر:(مانیٹرنگ ڈیسک ) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے دوران گزشتہ ماہ جون میں بارہ کشمیریوں کو شہید کیا۔کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق فوجیوں نے ان میں سے پانچ نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں یادوران حراست شہید کیا۔رپورٹ میں کہاگیاکہ ایک ماہ کے دوران بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے پرامن مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے نتیجے میں کم از کم چھبیس افراد زخمی ہوئے جبکہ محاصرے اورتلاشی کی196کارروائیوں کے دوران پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام جیسے کالے قوانین کے تحت نوجوانوں اورسیاسی کارکنوں سمیت570 شہریوں کوگرفتارکیاگیا جن میں ممتاز وکیل اور کشمیر بار ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ میاں عبدالقیوم بھی شامل ہیں۔مودی حکومت نے کشمیریوں کو سرینگر کی تاریخی جامع مسجد اور عیدگاہ میں عیدالاضحی کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔فوجیوں نے دو گھروں کو بھی تباہ کیاجبکہ ایک خاتون کی بے حرمتی کی گئی۔دریں اثنا ء کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیاں ایک نیا معمول بن چکاہے۔انہوں نے کہا کہ اگست 2019میں دفعہ370کی منسوخی کے بعد صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد اورآزادی کے مطالبے کو دبانے کے لیے ظالمانہ اقدامات کر رہی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ تقریبا 10 لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے مقبوضہ جموں وکشمیرکو دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جمائو والا علاقہ بنا دیا ہے اور کشمیریوں کو ہندوتوا کے تسلط سے بچانے کے لیے فوری بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے۔