سرینگر:(مانیٹرنگ ڈیسک )
الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیرمیں سیب کی کاشت پر انحصارکرنے والے لاکھوں کشمیریوں کی روزی روٹی ایک نئے ریلوے منصوبے کی وجہ سے خطرے میں ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اسلام آباد-بجبہاڑہ-پہلگام ریلوے لائن سمیت وادی کشمیر میں تقریبا 190کلومیٹر تک پھیلے ریلوے منصوبے سے کشمیری کسان شدیدپریشانی میں مبتلا ہیں۔محمد شفیع جیسے متاثرہ کسانوں کے احتجاج کے باوجود جن کا 1,500مربع میٹر کا سیب کا باغ منصوبے کی زد میں آتا ہے اوراس سے ان کی آمدنی کے بنیادی ذرائع کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے،مودی حکومت منصوبے کو آگے بڑھانے پربضد ہے۔سیب کی کاشت کشمیر کی معیشت کے لیے ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس سے تقریبا 35لاکھ کسانوں کوبراہ راست روزگار فراہم ہوتا ہے اور اس کاخطے کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ہے۔باضابطہ نوٹس نہ ملنے اور زمین کے سروے کے دوران پولیس کی موجودگی سے کسان خود کو بے اختیار محسوس کررہے ہیں۔ منصوبے کے خلاف شوپیاں جیسے علاقوں میں مظاہرے پھوٹ پڑے جہاں لوگ اپنی زمینوں اور معاش کے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ باغات کو کھونے کے ڈر سے کشمیری کسانوں میں شدید پریشانی اورمایوسی پائی جاتی ہے۔مقامی لوگوں کو زرخیز زمینوں کے ہاتھ سے نکل جانے اور ماحولیاتی تباہی کا خدشہ ہے۔ایک کشمیری ماہر ماحولیات راجہ مظفر بٹ نے ریلوے لائنوں کے ماحولیاتی اثرات سے خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اس سے جنگلات کی کٹائی ہو سکتی ہے اور خطے کے نازک ماحولیات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ریلوے کا منصوبہ بھارتی حکومت پر کشمیریوں کے شدید عدم اعتماد کی عکاسی کرتاہے۔شفیع جیسے کسانوں کے لیے ریلوے کا منصوبہ معاش اور ورثے کے لئے نقصاندہ ہے۔ اس کا باغ جو کبھی اس کے خاندان کے لیے فخر اور روزی روٹی کا ذریعہ تھا، اب حکومتی منصوبے کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہے۔ شفیع جن کی آنکھوں میں آنسو تھے ، اپنے بچوں کے غیر یقینی مستقبل سے پریشان ہیں۔الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ کشمیر میں جہاں سیب کا ہر باغ استحکام اور روایت کی کہانی سناتا ہے، ریلوے منصوبے کو ترقی کی نہیں بلکہ معاشی تباہی اور کشمیری شناخت کو کمزورکرنے کی علامت کے طورپر دیکھاجاتا ہے۔