سرینگر( نمائندہ خصوصی) بھارت 1948 سے لے کر اب تک مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، اور اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کاعالمی دن منایا جاتا ہے، لیکن بھارت 75 سال گزرنے کے بعد بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سر فہرست ہے۔ بھارت میں جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور نچلی ذات کے ہندووں پر زمین تنگ ہے، اسی طرح 1948سے اب تک مظلوم کشمیری بھارتی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کردی اور اس کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زائد بے گناہ کشمیری شہید، ڈیڑھ سو خواتین زیادتی کا شکار، 22 ہزار سے زائد گرفتاریاں اور 1200 املاک نذرِ آتش کی جاچکی ہیں۔ خود بھارت میں گزشتہ دو دہائیوں میں مسلمانوں کی تقریباً 500 سے زائد مساجد اور مزارات کو شہید کیا جا چکا ہے، 6 دسمبر 1992 کو اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں انتہا پسند ہندووں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ مسلمانوں کے علاوہ بھارت میں بسنے والے دیگر اقلیتی حتی کہ نچلی ذات کے ہندو بھی اس ظلم کا شکار ہیں، اور صرف 2021 میں دلت ہندوؤں کے خلاف 60 ہزار سے زائد اور گزشتہ 5 برسوں میں نچلی ذات کے خلاف ڈھائی لاکھ سے زائد نفرت انگیز جرائم رپورٹ ہوئے ہیں۔ جرمن نشریاتی ادارہ ڈی ڈبلیو کے رپورٹ کے مطابق بھارت میں اوسطاً ہر 10 منٹ میں ایک دلت کے خلاف تشدد کا واقعہ پیش آتا ہے، 2021 میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے 4 لاکھ سے زائد مقدمات درج کئے گئے۔ ڈی ڈبلیو کے مطابق بھارت میں صحافت کا گلہ گھونٹنے کے لئے قوانین کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا۔ دوسری جانب جہاں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، وہیں عیسائی بھی محفوظ نہیں، 25 اگست 2008 کو ہندو انتہا پسندوں نے ریاست اڑیسہ کے ضلع کندھمال میں سینکڑوں عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ صرف جنوری تا جون 2022 میں عیسائیوں کے خلاف 274 پرتشدد واقعات پیش آئے، جب کہ 2023 میں بھارت کی 23 ریاستوں میں عیسائیوں کے خلاف 400 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، فسادات میں 600 عیسائی گاوں اور 400 سے زائد چرچ نذرِ آتش کر دیے گئے۔