سیرینگر(خصوصی رپورٹ)ڈاکٹر سیف اللہ میر بھی اپنے رب سے کئے ہوئے عہد کو نبھا گئے ہیں ، جس کیلئے اُنہوں نے چھ برسوں سے جنگلوں اور بیابانوں کو اپنا مسکن بنائے رکھا تھا ، ملنگ پورہ پلوامہ میں سکول ٹیچر محمد اکرم میر کے گھر 1989ء میں سیف اللہ میر نے اُس وقت جنم لیا جب جموں و کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ ، غیرقانونی ، غیراخلاقی اور ناجائز قبضے کے خلاف طبل جنگ بج چکا تھا ، بارہویں جماعت تک سائنس مضامین میں اپنے ہی علاقے میں تعلیم حاصل کی، جس کے بعد تعلیم کے سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے پلوامہ میں قائم انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے بائیو میڈیکل انجینیئرنگ میں ڈپلومہ کیا تھا۔ بعد ازاں سری نگر میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تین سال تک بحیثیت ٹیکنیشن کام کیا۔ جس کے بعد اُنہیں اپنے ہی علاقے میں ایک انسٹیٹیوٹ میں بطور انسٹرکٹر بھرتی کیا گیا اپنے سبجیکٹ میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے کچھ عرصہ وادی کشمیر کے سب سے بڑے ہسپتال صورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں نوکری کے حصول کیلئے درخواست دی، جس کے بعد اُن کی اعلیٰ صلاحیتوں کے پیش نظر اُنہیں صورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں بھی نوکری مل گئی۔ یہ سلسلہ ایک ڈیڑھ برس تک جاری رہا ، لیکن سیف اللہ میر کسی اور دنیا کیلئے خود کو تیار اور پروان چڑھا رہا تھا ، اُن کے سینے میں بے چینی ، بے قراری اور بے سکونی انگڑئیاں لے رہی تھیں ، پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں ، کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ کے مصداق سیف اللہ ثانی 8 اکتوبر 2014ء کو حزب المجاہدین میں شامل ہوئے ، اعلی تعلیم یافتہ اور ٹیکنیکل ٹریننگ سے آراستہ سیف اللہ کو جیسے سب کچھ مل گیا ، یہ وہ دور تھا ، جب افسانوی شہرت کے حامل برہان وانی شوشل میڈیا پر کشمیری نوجوانوں کو بھارت کے خلاف عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزین جدوجہد ازادی میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے تھے ، برہان کے پیغامات اس قدر مؤثر اور پرمغز ہوتے تھے کہ سینکڑوں نوجوان حزب المجاہدین میں شامل ہوئے اور پھر اپنے خون کے آخری قطرے تک نہ صرف لاکھوں شہداء کے خون سے سینچی تحریکِ آزادی کی آبیاری بلکہ اپنی کل متاع بھی قربان کرکے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کی ہے ۔ وہ والدین کی آغوش میں جس تربیت کے ماحول سے گزرے ، اُس کی جھلک حزب کی صفوں میں شمولیت سے لیکر اپنا خون کا آخری قطرہ بہانے تک چھلکتی رہی ، وقت گزرتا گیا۔۔سیف اللہ بھی کندن بنتا گیا، 8 جولائی 2016ء میں برہان وانی کی شہادت ، پھر محمد یسین ایتو المعروف محمود غزنوی کی بحیثیتِ حزب آپریشنل چیف کی شہادت کے بعد اُستاد ریاض نائیکو کی حزب آپریشنل چیف کی تعیناتی اور 6 مئی 2020ء میں دشمن کے ساتھ ایک خونریز معرکے میں اُن کی شہادت کے بعد حزب آپریشنل چیف کا قرعہ فعال سیف اللہ میر کے نام نکلا ، آپریشنل چیف مقرر ہونے سے قبل وہ ضلعی کمانڈر پلوامہ تھے ، اُنہوں نے نہ صرف دشمن کے خلاف بھرپور منصوبہ بندی کرکے ساڑھے نو لاکھ بھارتی فوجیوں اور اُن کے زرخرید ایجنٹوں کو ناکوں چنے چبوائے بلکہ سرفروشوں اور جانبازوں کو ایک لڑی میں پرونے میں دن رات ایک کیا۔وہ ہر وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ، اُن کی خبر گیری ، نامساعد حالات میں اُن کی ضروریات کو پورا کرنے اور اُنہیں دشمن کے خلاف تیار کرنے میں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے رہے ۔ 2018ء میں جب بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے جموں کشمیر میں سرگرم 17 کمانڈراں کی سب سے سرگرم لسٹ مرتب کی تو اس میں ریاض نائیکو پہلے جبکہ سیف اللہ میر دوسرے نمبر پر تھے۔ریاض نائیکو کی طرح سیف اللہ میر کو بھی بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے اے پلس پلس یعنی انتہائی مطلوب کمانڈروں کے زمرے میں رکھا تھا۔ بیمار اور زخمی مجاہدین کا علاج کرنے کی وجہ سے وہ ڈاکٹر سیف کے نام سے مشہور ہوئے تھے۔ اُنہیں حزب المجاہدین کا آپریشنل چیف مقرر کئے جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُنہوں نے دونوں سابق کمانڈر استاد ریاض نائیکو اور برہان مظفر وانی کے ساتھ کام کیا تھا اور تنظیم کے نیٹ ورک سے بخوبی واقف تھے۔ وہ اخلاص و اخلاق کی عملی تفسیر تھے ، بلاشبہ وہ حزب المجاہدین کا قیمتی اثاثہ تھے ، کیونکہ حالات کے تمام ترجبر کے باوجود وہ نہ صرف دشمن کے خلاف ڈٹے رہے ، بلکہ دشمن اور اُن کے ایجنٹوں کو زخم پے زخم دیتے رہے ، یکم نومبر بروز اتوار سرینگر میں اولڈ اور نیو ائر پورٹ کے درمیانی علاقے رنگریٹ میں ایک مسلح تصادم آرائی کےدوران ڈاکٹر سیف اللہ برہمن سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔اولڈ اور نیو ائر پورٹ کے درمیانی علاقہ واوسہ گوگو لینڈ رنگریٹ سرینگر علاقے میں بھارتی سفاکوں نے یکم نومبر دوپہر دو بجے محاصرہ کرکے تلاشی آپریشن شروع کیا ۔محاصرے کے دوران رنگریٹ سے نیو ائرپورٹ ہمہامہ جانے والی سڑک سیل اور رنگریٹ کے علاوہ ، وائوسہ ، گوگو اور دیگر ملحقہ علاقوں کی ناکہ بندی کی گئی۔ دشمن کے نرغے میں آنے کے بعد حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر ڈاکٹر سیف اللہ نے مورچہ سنبھالا ، اور دشمن پر جوابی حملہ کیا ، اگرچہ اُن سے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش بھی کی گئی ، لیکن اس مرد مجاہد نے اپنے سابقہ پیشروں کی اعلیٰ روایات کو زندہ رکھتے ہوئے لڑنے کو ترجیح اور اکیلے دشمن کے ساتھ کئی گھنٹوں تک معرکہ آرائی جاری رکھی۔ بزدل دشمن جب ڈاکٹر سیف اللہ کا مقابلہ نہیں کرسکا ، تو حسب روایت اُس رہائشی مکان کو ہی گولہ باری سے تباہ کیا ، جس میں ڈاکٹر سیف اللہ مورچہ زن تھے ، مکان کی تباہی کے ساتھ ہی یہ مرد مجاہد اپنے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو نبھا گئے ، ڈاکٹر سیف اللہ کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی نوجوان جھڑپ کے مقام پر جمع ہوئے ، اُنہوں نے بھارتی دہشت گرد فوجیوں پر نہ صرف سنگباری بلکہ بھارت کے خلاف اور اسلام و آزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے بلند کئے ، بھارتی دہشت گرد فوجیوں نے نوجوانوں کو منتشر کرنے کیلئے پیلٹ اور آنسو گیس کا استعمال کیا ۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا ، بھارتی سفاکوں نے تصادم آرائی کے بعد مالک مکان محمد شفیع گنائی کو گرفتار کیا۔ جبکہ مکان کے پیچھے کھڑے ایک نوجوان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ، جو بیجبہاڑہ کا رہنے والا اور اسکا بھائی مجاہد تھا جو 2018ء میں جام شہادت نوش کر چکا ہے۔ سیف اللہ کی شہادت یقیناً تحریکِ ازادی کیلئے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے ، لیکن اُن کی جدائی کو دشمن نے حزب المجاہدین "سرپرست” سے محروم ہوگئی ہے ، کا عنوان دیا ہے ، اِس سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن کی صفوں میں اُن کی کس قدر دھاک بیٹھ چکی تھی ، کیونکہ وہ ایک منصوبہ ساز تھے ، دشمن اور اُس کے حواری 1990ء سے مسلسل اسی طرح کے دعوے کرتے رہے ، لیکن سرزمین جموں کشمیر کے بیٹوں نے اپنے لہو سے بھارتی دعووں کو ہمیشہ غلط ثابت کیا ، گوکہ حالات کے جبر نے تحریکِ آزادی کو بھی متاثر ضرور کیا ہے ، لیکن یہ تحریک ایک کے بعد ایک جنریشن کو منتقل ہورہی ہے۔ کمانڈر سیف اللہ کو بھی اپنے آبائی گھر سے دور بارہ مولہ میں قائم بھارتی فوج کے زیر استعمال قبرستان میں سپردخاک کیا گیا ۔جس کا مقصد اہل کشمیر کو اپنے لخت جگر سیف اللہ میر کے ساتھ والہانہ عقیدت سے باز رکھنا تھا ، لیکن بھارتی سفاک تاریخ کا یہ سبق شائد بھول گئے ہیں کہ جو لوگ اپنا آج قوم کے کل پر قربان کرتے ہیں ، وہ دلوں میں بستے اور دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں ، ہر شہید کو اپنے آبائی علاقے سے دور قبرستانوں میں سپردخاک کرنے سے بھارت کے خلاف اہل کشمیر کے دلوں میں ایک لاوا پک رہا ہے ، جو بھارت اور اُس کے حواریوں کو بھسم کرکے رکھ دے گا۔حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین احمد نے ڈاکٹر سیف اللہ کو عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے اُن کی جدائی کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا جو منزل حاصل کرنے کی ہم نے ٹھان لی ہے ، شہادتیں اُس کا ناگزیر حصہ ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ سیف اللہ نے دنیاوی مالی فوائد حاصل کرنے کے مواقع ہونے کے باوجود حزب کی صفوں میں شامل ہونے کو ترجیح دی۔ سخت ترین حالات میں مجاہدین کی صفوں کو مظبوط کرنے میں اہم اور بینادی کلیدی کردار ادا کیا۔مجاہدین کی نہ صرف عسکری بلکہ ذہنی اور فکری تربیت کا بھی اہتمام کیا ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ 9 لاکھ سے زائد جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود شہادت سے لبریز نہتے مجاہدین نے اُن کی نیندیں حرام کی ہیں۔ اُن کی جدائی سے دل رنجیدہ ضرور ہیں لیکن یہ بھی یقین ہے کہ خدا کی بارگاہ میں یہ مقدس لہو ضائع نہیں ہوگا۔ سیف اللہ کے ہر خون کے قطرے سے ہزاروں سیف اللہ جنم لیں گے۔ جناب سیف اللہ میر کی شہادت حزب المجاہدین اور اُن کے والدیں کو مبارک ہو۔ اُس والدہ کو جس کے بطن سے ڈاکٹر سیف اللہ جیسے جری مجاہد نے 31 برس قبل جنم لیا۔ جس نے اپنی چڑھتی جوانی سرزمیں جموں کشمیر کی غلامی کے خاتمے اور یہاں اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے قربان کی۔اُن کی جدوجہد اور قربانی تاصبح قیامت یاد اور آنے والے نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ شہید سیف اللہ میر اور لاکھوں شہداء کی قربانیوں کی حفاظت فولادی عزم کے مالک اہل کشمیر پر فرض اور قرض ہے۔ جن کی حفاظت اور اِن قربانیوں کے ذریعے تحریکِ ازادی کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری اور ناگزیر ہے۔ حزب المجاہدین کی قیادت نے سیف اللہ میر کی شہادت کے بعد ابو عبیدہ کو چیف آپریشنل کمانڈر اور مصعب الاسلام کو اُن کا نائب مقرر کرکے بھارت ، جموں کشمیر میں تعینات دہشت گرد بھارتی فوجیوں اور بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ حزب المجاہدین مزاحمتی میدان میں موجود اور اہل کشمیر کی مدد سے اِس جدوجہد کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی وعدہ بند ہے۔ کیونکہ حزب المجاہدین 1990ء سے لیکر آج تک مسلسل وہ قرض بھی اتار رہی ہے کہ جو اُس پر واجب تھا۔ تحریکِ آزادی میں گزشتہ تینتیس برسوں سے ایک لاکھ سے زائد افراد اپنی جانیں قربان ، لاکھوں کشمیری بھارتی درندگی و بربریت کے نتیجے میں زخمی، اپاہج ، ایک لاکھ سات ہزار بچے یتیم ، 23000 ہزار خواتین بیوہ ، دس ہزار کشمیری گرفتاری کے بعد لاپتہ ، پانچ ہزار گمنام قبریں اور اُن میں مدفون ہزاروں افراد ، کھیت وکھلیان اور اربوں روپے کی جائیداد و املاک کی تباہی جبکہ بارہ ہزار خواتین کی آبروریزی و بے حرمتی کیا کوئی باضمیر کشمیری اِن قربانیوں کو بہلا پائے گا؟ آج PHD اور ایم فل اسکالرز اِس تحریک کو اپنے خون سے سینچ رہے ہیں۔ اِس تحریک کو اللہ تعالی ضرور کامیابی و کامرانی اور جدوجہد کرنے والے سرفروشوں کو فتح و نصرت سے نوازے گا۔ بس استقامت ، سنجیدگی ، اخلاص اور تحریک کے ساتھ مخلصانہ وابستگی شرط اول ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر سیف اللہ کی قربانی کو اپنی بارگاہِ اقدس میں قبول فرمائے آمین ثمہ آمین یارب العالمین
چراغ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے