مظفر آباد (محمد زبیر خان )’میرے بے گناہ بھائی اور رشتہ داروں کو مار دیا گیا۔ اب مہربانی کر کے ہمیں ان کی لاشیں دے دی جائیں تاکہ ہم ان کی تدفیق کرسکیں۔‘یہ کہنا ہے محسن عباس کا جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی وادی نیلم کے گاؤں سونار کے رہائشی ہیں۔ ان کے بھائی شیر افضل اُن کل پانچ لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں لائن آف کنٹرول پار کرنے پر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک مبینہ ’پولیس مقابلے‘ میں ہلاک کیا گیا ہے۔ہلاک ہونے والوں میں شامل صدیق کے والد طسین کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا گھر سے ’جڑی بوٹیاں لینے گیا تھا (مگر) واپس نہ آیا۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’انڈیا میڈیا سے پتا چلا کہ اس کو مار دیا گیا ہے۔ مارے جانے والے تمام لوگوں کو ہم جانتے ہیں، وہ ہماری ہی برادری کے ہیں۔‘طسین کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کا ’کسی جہادی تنظیم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ سب تو مزدور پیشہ ہیں۔‘پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آخری گاؤں سونار سے کنٹرول آف لائن نصف کلو میٹر دور ہے۔ علاقے کے منتخب کونسلر محمد ارشد کے مطابق 1500 کی آبادی والے سونار میں قریب ڈیڑھ سو گھر ہیں جہاں کے پانچ افراد کی ہلاکت پر کہرام مچا ہوا ہے۔انڈین اخبار دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے بتایا کہ کپواڑہ پولیس کو کنٹرول لائن سے دراندازی کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد ایک پولیس مقابلے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جن کی شناخت کی جا رہی ہے۔ سرچ آپریشن جاری ہے۔‘ڈائریکٹر جنرل پولیس دلباغ سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی کی کوشش ہوتی رہتی ہے اور اسے فوج، پولیس اور دیگر ایجنسیاں ناکام بناتی ہیں۔دلباغ سنگھ نے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’16 لاچنگ پیڈز ہیں۔ (انڈیا کے زیرِ انتظام) جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ لوگ امن اور ترقی پر یقین رکھتے ہیں اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔‘دریں اثنا اس رپورٹ کے مطابق انڈین فوج کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ مارے گئے ’دہشت گردوں‘ کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بر آمد ہوا ہے۔تاہم ادھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تھانہ کیل میں درج رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محمد صدیق، شیر افضل، فیاض احمد، غلام رسول اور سرفراز احمد 26 اکتوبر کو ’جڑی بوٹیوں کی نشاندہی‘ کے لیے گئے تھے مگر کبھی واپس نہیں آئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ پانچ اشخاص کو انڈین آرمی نے ہلاک کیا اور لاشیں بھی واپس نہیں کیں۔’ان لوگوں کا جہادی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں، وہ جڑی بوٹیاں چننے گئے تھے‘علاقے کے کونسلر اور ہلاک شدگان کے قریبی رشتہ دار ارشد کا کہنا ہے کہ ’ہمارا علاقہ پُرامن ہے۔ سامنے پہاڑ کے اوپر انڈین فوج کی چوکی ہے۔ یہاں کے سب لوگ غریب اور مزدور پیشہ ہیں۔ کسی کا بھی کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ سرفراز کی عمر تقریباً 40 سال تھی اور انھوں نے لواحقین میں اہلیہ اور چار کم عمر بچے چھوڑ ہیں۔ 36 سالہ غلام رسول کے لواحقین میں اہلیہ اور پانچ بچے ہیں جبکہ 40 سالہ صدیق کے لواحقین میں چار بچے اور اہلیہ شامل ہیں۔انھوں نے بتایا کہ 36 سالہ شیر افضل اور 37 سالہ فیاض کے بیوی بچے بھی ان کی واپسی کے منتظر تھے۔ارشد نے کہا کہ یہاں آباد لوگوں کی اکثریت مال مویشیوں، کھیتی باڑی اور دیہاڑی دار مزدوری سے وابستہ ہیں۔ ’جب سردیاں ہوتی ہیں تو یہ نیچے کشمیر کے شہروں مظفر آباد وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں اپنے علاقے میں آجاتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ پانچوں ’دیہاڑی دار مزدور تھے۔ ان پانچوں کے بارے میں خیال ہے کہ یہ جڑی بوٹیوں کی اچھی پہنچان رکھتے تھے، اس لیے یہ عموماً گرمیوں میں جڑی بوٹیاں تلاش کرتے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ یہ مزدور گاؤں، جنگل اور کنٹرول لائن کے علاقوں میں جڑی بوٹیاں تلاش کرنے جاتے رہتے تھے جو کہ ان کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی تھا۔کونسلر ارشد کے مطابق 26 اکتوبر کو یہ پانچوں انھیں مل کر گئے تھے۔ ’کنٹرول لائن کے قریب نیچے کچھ نالے ہیں۔ وہاں پر آمد و رفت بہت کم ہوتی ہے۔ علاقے میں اچھی تعداد میں جڑی بوٹیاں ملتی ہیں، اس لیے وہ وہاں گئے تھے۔‘ان کا دعویٰ ہے کہ 26 اکتوبر کی صبح گیارہ سے بارہ بجے کے درمیان لائن آف کنٹرول کے پاس انڈیا کے زیرِ انتظام علاقے سے فائرنگ کی آوازیں آئی تھیں۔ ’یہ یکطرفہ فائرنگ تھی جو اس مقام کے قریب تھی جہاں پر ممکنہ طور پر یہ پانچوں جڑی بوٹیاں چننے گئے تھے۔‘ارشد کے مطابق علاقے کے لوگ جانتے تھے کہ یہ افراد وہاں جڑی بوٹیاں چننے گئے تھے، اس لیے علاقے میں پریشانی کی لہر دوڑنے لگی۔ ’فائرنگ ختم ہوئی تو سب کا خیال تھا کہ ایسا ہوتا رہتا ہے، شاید انڈیا کی طرف کوئی تربیت وغیرہ ہو رہی ہو۔‘مگر جب مغرب تک یہ افراد واپس نہ آئے تو لوگ جمع ہوگئے۔ صدیق کے والد طسین بتاتے ہیں کہ 27 اکتوبر کی دوپہر ’انڈین میڈیا پر خبریں چلیں تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے بچوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘ہلاک ہونے والوں میں سے ایک شیر افضل کے بھائی عباس نے کہا کہ ’ہمارے پورے گاؤں میں کوئی بھی لشکر یا کالعدم تنظیم موجود نہیں۔ گاؤں انتہائی پُرامن ہے اور یہاں پر تو لوگوں کو فکر روزگار ہی سے فرصت نہیں ملتی ہے۔‘ارشد نے ’بے گناہ‘ لوگوں کی ہلاکت پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی لاشیں نہ ملنے سے ہمارا سارا علاقہ کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہے۔’حکومت پاکستان اپنا کردار ادا کرے اور انڈیا ان کی لاشیں ہمارے حوالے کرے تاکہ ہم ان کی تدفین کرسکیں۔ اس واقعے کی غیر جانبدار مبصرین کے ذریعے تحقیقات کروائی جائیں۔‘