سرینگر(نمائندہ خصوصی )نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے تاریخی مقامات اور اداروں کے نام تبدیل کرکے ایک بھرپور ثقافتی یلغار شروع کر رکھی ہے۔
مودی حکومت مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلم تشخص کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے ہندو مندروں کی تعمیر ، کشمیری زبان کا رسم الخط تبدیل کرنے ، اس کی تاریخ کو مسخ کرنے اور اہم مقامات کے نام تبدیل کرنے جیسے کئی اقدامات کئے ہیں۔ مودی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں کٹھ پتلی حکومت قائم کر کے سکولوں ، سڑکوں ، پلوں اور کھیلوں کے میدانوں جیسے درجنوں مقامات کو علاقے میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کے ناموں سے منسوب کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں اسکولوں ، کالجوں ، سڑکوں اور عمارتوں کے نام بدلنا وہی طرزِعمل ہے جو بی جے پی نے 2014ء سے پورے بھارت میں اپنا رکھا ہے۔ مودی حکومت کا یہ اقدام نہ صرف بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتاہے بلکہ یہ اجتماعی یادداشت مٹانے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو نقصان پہنچانے کی عکاسی کرتا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام نے 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی قبضے کے بعد سے بھارتی فورسز کی طرف سے انتہائی ظلم و جبر کا سامنا کیا ہے اور 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔اس وقت تقریباً 10 لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ جموں کشمیر میں موجود ہیں جس کی وجہ سے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے ۔ ناموں کی تبدیلی اور شناخت کو درپیش خطرات کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ غیر متزلزل ہے۔ کشمیری عوام اپنی منفرد شناخت کو برقرار رکھنے اور بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پرُعزم ہیں۔ کشمیری عوام اپنی ثقافت اور شناخت کے تحفظ کے لئے پرُعزم ہیں۔گزشتہ تقریباً 76 برسوں سے نہتے اور معصوم کشمیری عالمی برادری اور انسانی حقوق کے علمبرداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ جموں کشمیر کے لوگوں کو ان کاحق خودارادیت دلانے کے لیے سلامتی کونسل کی منظورشدہ قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔