نئی دہلی( کےایم ایس)
بھارتی سپریم کورٹ نے بدھ کو دفعہ 370 کی منسوخی جس کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور مقبوضہ علاقے کی دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کے مودی حکومت کے غیر قانونی اقدام کے خلاف دائر عرضداشتوں کی سماعت کا آغاز کر دیا ہے ۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 11 جولائی کو دفعہ 370 کے خلاف دائر عرضداشتوں کی 2 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے عرضداشتوں پر سماعت شروع کی ۔ بنچ پیر اور جمعہ کے سوا ان عرضداشتوں پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا ۔ بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریا کانت بھی شامل ہیں۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ نوڈل وکیل کے ذریعے آئینی بنچ کو ایک نوٹ پیش کیا ، جس میں کہا گیا کہ زبانی دلائل پیش کرنے میں تقریباً 60 گھنٹے لگیں گے۔سماعت کی آئندہ سماعت کے دوران سینئر وکیل ایڈووکیٹ کپل سبل ، ایڈووکیٹ گوپال سبرامنیم ، ایڈووکیٹ راجیو دھون ، ایڈووکیٹ دشینت دیو ، ایڈووکیٹ شیکھر ناپھاڑے ، ایڈووکیٹ دنیش دویدی ، ایڈووکیٹ ظفر شاہ، ایڈووکیٹ سی یو سنگھ، ایڈووکیٹ پرشانتو چندر سین ، ایڈووکیٹ سنجے پاریکھ ، ایڈووکیٹ گوپال سنکر رائنن ، ڈاکٹر مانیکا گروسوامی ، ایڈووکیٹ نیتا رام کرشنن ، ایڈووکیٹ پی وی سریندر ناتھ اور دیگر درخواست گزاروں کی جبکہ اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مودی حکومت کی نمائندگی کریں گے۔ سینئر وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل کا آغاز کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ جمعرات تک اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔اس سے قبل درخواستوں پر سماعت سے قبل ضروری کارروائیوں مکمل کرنے کے لیے 11 جولائی کو سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کی تھی، جس میں آئینی بنچ نے اس معاملے کو 7 رکنی بنچ کے پاس بھیجنے کی ضرورت کے خلاف فیصلہ دیاتھا۔ادھر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اور پارٹی کے رکن پارلیمنٹ حسنین مسعودی نئی دلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انہیں بھارتی سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے دفعہ 370 جس کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی کی منسوخی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے۔انہوں نے کہا ہم نے چیف جسٹس اور ان کے ساتھی جج کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ 5 اگست 2019ء کو کیا ہوا تھا اور ہم سپریم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں نے کئی سوالات بھی اٹھائے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ 5 اگست 2019ء کو جموں کشمیر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ غلط تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ ہمیں اپنی شکایات پیش کرنے کا موقع ملا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اسے ہمارے نقطہ نظر سے دیکھے گی۔ہم آئین کی بات کر رہے ہیں ۔