لاہور(انٹرویو: محمد قیصر چوہان)انتھک محنت، اپنے کام سے سچی لگن اور حصول کامیابی کا جذبہ صادق اگر کسی بھی انسان میں مستقل مزاجی کے ساتھ موجود ہو تو اس انسان کے آگے منزلیں خود زیر ہو کر قدموں میں بچھ جاتی ہیں یہ جذبہ محب وطن اوورسیز پاکستانی داﺅدسلیمان جاوید پرنس کی شخصیت میں واضح طور پر چھلکتا ہے جو ہر وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں رواں دواں رہتے ہیں۔ خوش اخلاقی، پروفیشنل ازم، اچھی ، مثبت سوچ اور احساس ذمہ داری کے اصولوں کی پٹری پر چلتے ہوئے وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں شہرکے معروف علاقے گوشت مارکیٹ میں پیداہونے والے داﺅدسلیمان جاوید پرنس حیران کن قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔وہ اپنے مضبوط حوصلوں، بے مثال کردار کے ذریعے حالات کے دھاروں کا رخ موڑ دیتے ہیں۔پاکستان سے ان کی بے پناہ محبت ہر مصلحت سے بالاتر نظر آتی ہے۔
دانشمند،زیرک، ذہین اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک داﺅد سلیمان جاوید پرنس کی متاثر کن اور سحر انگیز شخصیت کے کئی رنگ، کئی جہتیں، کئی زاویے اور کئی رخ ہیں اور ان کی ذات کا ہر رخ، ہر زاویہ، ہر جہت اور ہر رنگ دل لبھانے والا ہے۔ بلاشبہ داﺅدسلیمان جاوید پرنس کا شماران گوہر نایاب شخصیات میں ہوتا ہے جو فرانس جیسے ترقی یافتہ یورپی ملک میں مقیم ہیں لیکن ان کا دل پاکستان کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے دھڑکتا ہے۔داﺅدسلیمان جاوید پرنس مثبت سوچ کے مالک ایک محب وطن اوورسیز پاکستانی ہیں۔خدمت خلق کے مشن پر گامزن داﺅدسلیمان جاوید ایک ہمدرد، مخلص، دوست نواز، ملنسار، خوش اخلاق، درگزر کرنے والے، ذہین، محنتی،بے غرض، دور اندیش ،با عمل، خوش مزاج، مستقل جدو جہد کرنے والے، ہشاش بشاش، امن پسند، خوب سے خوب تر کر کے متلاشی، دلکش شخصیت کے مالک، اچھے منصوبہ ساز، ذہین، گہرا مشاہدہ کرنے والے، اچھے منتظم، نفاست پسند، خوش لباس، وعدے کے پابند، حساس، با اعتماد، اصول پسند، قول کے پکے، ذمہ دار، مدد گار، قوت برداشت کے مالک، مستقل مزاج، دوستوں کیلئے قربانیاں دینے والے، با ہمت، منکسر المزاج، صابر و شاکر، پر کشش، مہذب، تعمیری ذہن کے مالک، ہمدرد، پر عزم،باوقار، وفادار، صاف گو، رحم دل، جدت پسند، بے باک، نڈر، ہر طرح کے حالات میں ڈٹ جانے والے، زندگی میں استحکام کے خواہش مند،ثا بت قدم، مظبوط قوت ارادی اورمقناطیسی شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ داﺅدسلیمان جاوید پرنس 19 سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان تشریف لائے تو ہم نے کھاریاں میں ،کھاریاں پریس کلب سابق خزانچی طاہر رشید صدیقی کی وساطت سے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا ۔اس نشست میں ہمارا موضوع ان کا پاکستان سے یورپ تک سفر کیسے طے ہوا، اور انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا سمیت دیگر موضوعات تھے۔محب وطن اوورسیز پاکستانی داﺅدسلیمان جاوید پرنس سے ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔
سوال: سب سے پہلے تو آپ ہمارے قارئین کو اپنے ماضی کے بارے میں کچھ بتائیں،کس علاقے کے رہنے والے ہیںاور کیا کام کرتے تھے؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:میرا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں سے ہے ۔میں نے کھاریاں کے معروف علاقے گوشت مارکیٹ میں ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولی ۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکول سے حاصل کی ۔معاشی حالات کی وجہ سے میں اپنا تعلیمی سفر جاری نہ رکھ سکا۔ لڑکپن اور جوانیکے دن غربت سے لڑتے ہوئے گزرے۔میں نے چھوٹی عمر سے مزدوری کرنی شروع کردی تھی۔ کھاریاں کی فروٹ منڈی میں پلے داری کا کام کرتا تھا۔زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے بڑی محنت کیا کرتا تھاان دنوںمیری بس ایک ہی سوچ تھی کہ کسی طرح اپنی فیملی اور دیگر رشتہ داروں کو معاشی طور پر مضبوط بناﺅں۔
سوال: فرانس جانے کا خیال کس طرح آیا؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس: فرانس جا کر سیٹ ہونے کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ وہاں کا دانہ پانی لکھا تھا بس قسمت وہاں لے گئی۔
سوال: آپ یورپ کب اور کس طرح گئے تھے؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:میں 2005 میں اپنے ایک دوست ندیم کے ساتھ کراچی گیا تھا پھر وہاں سے اچانک ایران کے راستے ترکی اور پھر یونان جانے کا پروگرام بنااور یوں میںڈنکی لگا کر یورپ چلا گیا۔
سوال: یہ ڈنکی کیا ہوتی ہے؟اور ڈنکی کے ذریعے لوگ کس طرح یورپ جاتے ہیں؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:کسی بھی شخص کو غیر قانونی طریقے سے پیدل ایران اور ترکی پھر وہاں سے کشتی میں سوار ہو کر سمندری راستے سے یونان یا اٹلی سمیت کسی اوریورپی ملک جانے کے عمل کو پنجابی میں ’ڈنکی‘ کہا جاتا ہے اور یہ کام کرنے والے افراد کو’ڈنکر ‘ کہا جاتا ہے ۔یہ لفظ زیادہ تر گجرات، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں استعمال ہوتا ہے جبکہ بلوچستان کے راستے ایران جانے والوں کو وہاں کے انسانی سمگلرز ’مہمان‘ کہتے ہیں۔ترکی سے یونان بذریعہ سمندری سفر کیلئے چھوٹی کشتیاں استعمال ہوتی ہیں ان کشتیوں سے پنجابی لفظ ڈنکی بنا،پاکستانیوں کی اکثریت قرض لے کر ،گھر یا پھر زمین کاٹکڑا بیچ کر، ماں ، بہن اور بیوی کے زیور ات ، فروخت کر یورپ جاتے ہیں، ڈنکی کا نام لینا آسان ہے، لگانی بہت ہی مشکل ہے۔ڈنکی لگا کر یورپ جانے والے افرادکو موت کی شاہراہ سے گزرنا پڑتا ہے، میرے نزدیک تو ڈنکی لگا کر یورپ جانا خود کشی کے مترادف ہے۔بے روزگاری،معاشرتی عدم توازن ،راتوں رات امیر بننے کا خواب نوجونوں کو اس مہم جوئی پر اکساتا ہے اور وہ کسی ایسے ایجنٹ کی تلاش میںہوتے ہیں جوکسی طرح ان کو سمندر پار یورپ کی دنیا میں پہنچا دے ۔
سوال: آپ ہمیں اپنے ڈنکی کے ذریعے یورپ کے سفر بارے میں بتائیں؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پنجابی کا ایک جملہ ’بیچو مکان تے چلو یونان(مکان فروخت کرو اور یونان چلو) ایک رائج الوقت محاورے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ضلع گجرات میںیہ جملہ زبان زد عام تھا ان دنوں یورپ جانے کی خواہش ایک وبا کی صورت اختیار کرچکی تھی اور نوجوان اپنی ہر چیز داﺅپر لگا کر یورپ جانا چاہتے تھے۔یہ 2005 کی بات ہے کہ میرے ایک بہترین دوست ندیم نے مجھے بتایا کہ وہ ایران اور ترکی کے راستے یونان جا رہے ہیں ۔ انہوں نے مجھ سے دیافت کیا کہ کیا تم بھی یونان جانا چاہتے ہو ،میں نے انکار کردیا کیونکہ ان دنوں میرے معاشی حالات اچھے نہیں تھے۔ میں نے کہا یار میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ندیم نے کہا کہ یار تم میرے ساتھ کراچی چلو میں ایجنٹ سے بات کرتا ہوں ۔اور یوں ہم کھاریاں سے کراچی کیلئے روانہ ہوئے۔پھر بلوچستان کے راستے ایران ، وہاں سے ترکی اور پھر یونان پہنچے۔
سوال: اس سفر کے دوران آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:آج بھی جب میں یورپ کے اس غیر قانونی ڈنکی کے سفر بارے سوچتا ہوں تو میری روح کانپ اُٹھتی ہے۔کیونکہ میں نے یورپ کا یہ سفر ہر جانب ،ہر قدم موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے کیا تھا۔ (ڈنکر)ایجنٹ حضرات ڈنکی لگا کر یورپی ممالک جانے والے افراد کوانسان نہیں سمجھتے بلکہ وہ ان سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کرتے ہیں ۔ڈنکی کے ذریعے پنجاب سے یورپ جانے والوں کو قطعی بلوچستان ، ایران اور ترکی کے جغرافیائی حالات کا علم نہیںہوتالہٰذا میدانوں کے رہنے والے یہ نوجوان جب خطرناک پہاڑی سلسلوں،صحراﺅں ،ندی نالوں اور جنگلوں میں میلوں پیدل چلتے ہیں تو ان میں کئی کسی حادثہ کا شکار ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور جو زخمی ہو جا ئے، اسے بھی یہ ایجنٹ خود مار دیتے ہیں کیونکہ وہ اس سفر کے دشوار گزار راستوں کو عبور کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ پیچھے ان کو چھوڑا نہیں جاسکتا اور یہ ایجنٹ اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ ان کا کام ایک انسانی کھیپ کو ایران اور ترکی کی سرحد پر پہنچانا ہوتا ہے ،اس کے بعد سمندری سفر کے ذریعے یونان پہنچانا ہوتا ہے۔یورپ کے اس خطرناک سفر کے دوران ہم نے بلند وبالا پہاڑ وں ، جنگلوں، ندی نالوں کوعبور کیا۔اس دوران میں نے کئی خطرناک سانپ بھی دیکھے ،جن کے ڈسنے سے کئی افراد ہلاک ہوئے ۔ راستے میں لاوارث مرے ہوئے لوگوں کی لاشیں بھی دیکھیں۔ایران سے ترکی جاتے ہوئے ڈنکر نے ہمیں مسلسل 32 گھنٹے پیدل چلایا۔اس دوران راستے میں بدبودار گندا پانی پینا پڑا۔میرے پاﺅ ں میں موچ آگئی تو درد کی شدت کی وجہ سے مجھ سے مزید چلا نہیں جا رہا تھا میں زمین پر بیٹھ گیا تو ایجنٹ نے مجھے کہا کہ جس طرھ بھی ہو سکے تم چلتے رہو ،ورنہ میں آپ کو راست میں ہی چھوڑ دوں گا ، واپس تم جا نہیں سکتے ۔غربت اور موت کا خوف مجھے مسلسل چلنے پر مجبور کرتا رہا۔یورپ کے اس سفر کے دوران جو لوگ مرجاتے ہیں ان کو کفن تو کیا قبر بھی نصیب نہیں ہوتی، انسانیت کی جوتوہین ان ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ترکی اور یونان کی سرحد پر ایسے قبرستان ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن کی قبریں ہیں۔ ان بے نام قبروں پر کوئی کتبہ نہیںلگا ہوا۔ان کا تعلق کس مذہب سے ہے ،کوئی تمیز نہیں۔خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی لاشوں کو راہ چلتے ہوئے لوگ دفنا دیتے ہیں ان پہاڑی علاقوں میںبے پناہ افراد کی لاشوں کو نہ تو کفن نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی قبر ملتی ہے۔نہ کسی کی نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے۔ڈنکی لگانے والے انسان کی زندگی بد تر ہوتی ہے،ہم راستے میں فروخت ہوتے جاتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم فروخت ہوتے ہیں۔اس سفر کے دوران ہمیں کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ڈنکرہمیں پہاڑوں میںبے یاروں مدد گار چھوڑ کر خودمحفوظ مقامات پر چلے جاتے ہیں،زیادہ تر سفر رات کو کیا جاتا ہے۔ ایران اور ترکی کے اندر ڈنکر ہمیں جانوروں کی مانند گاڑیوں میں ٹھونس کر کنٹینروں میں بند کرکے
بھی لے جاتے تھے،بعض اوقات تہہ خانے میں بھی بند رکھتے تھے۔زندگی اور موت کے اس کھیل میںہم تین ملکوں کی بارڈر سیکورٹی فورسزکوچکما دے کر ایران، ترکی اور پھر یونان میںداخل ہوئے ۔کئی افراد بارڈر کو کراس کرتے ہوئے ان فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔میںاپنی جان کی بازی لگا کر یونان پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا۔
سوال: آپ یونان پہنچ کر کس طرح سیٹل ہوئے ؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:پیسے میںبڑی طاقت ہے۔ہم نے یونان میں موجود پاکستانی ایمبسی کے افراد کورشوت دیکر اپنے پاسپورٹ کی تاریخ میں تبدیلی کراوئی ۔ یونان کی ایمیگریشن میں اپلائی کیا۔پھر جب انکوائری آئی تو ایک بار پھر پاکستانی ایمبسی کے افراد کو رشوت دیکر انکوائری کلیئر کروائی۔ چھےسال یونان میں رہنے کے بعد میں فرانس چلا گیا۔
سوال: آپ نے یونان میں کونسا کام کیا ؟
داﺅدسلیمان جاویدپرنس:مجھے کوئی ہنر نہیں آتا تھا اسی لیے مزدوری ہی کی۔ البتہ مجھے جو بھی کام ملتا میں اس کو کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا۔مزدوری کے درارن میں نے ٹھیکیداری کے کام کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
سوال: فرانس میں کس کام سے وابستہ ہیں؟
داﺅدسلیمان جاویدپرنس:فرانس پہنچ کرمزدور سمیت بڑے کام کئے ۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کے اس نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے صدقے مجھے ٹھیکیدار بنا دیا اور پھر میں نے اپنا کنسٹرکشن کا بزنس شروع کردیا۔
سوال: اکثر سننے کو ملتا ہے کہ یورپ جانے والے افراد کی کشتی کو حادثہ پیش آگیا جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے، آپ نے تو خودیورپ کے سفر کے دوران ہر چیز دیکھی ہے یہ حادثات کیوں رونما ہوتے ہیں؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:انسانی اسمگلر یا ایجنٹ حضرات جو ڈنکی لگانے والے افراد کو سبز باغ دکھاتے ہیںوہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اگر یہ انسانی اسمگلر سچ بولیں تو کوئی بھی شخص موت کے راستے پر چل کر یورپ نہ جائے ۔یورپ کے سفر کے دوران کشتی چوری کی ہوتی ہے ،اس کو چلانے والا بھی اناڑی ہوتا ہے اور پھر اوورلوڈنگ کی جاتی ہے پکڑے جانے کے خوف سے اناڑی ڈرایﺅرکشتی تیز رفتاری سے چلاتے ہیں جس کے سب حادثات رونما ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں درجنوں افراد سمندر میں ڈوب کر مرجاتے ہیں اس کے علاوہ ایران اور ترکی کے پہاڑی علاقوں میں گاڑیاں چلانے والے ڈرائیورز کی بڑی تعداد نشہ کرکے گاڑی چلاتے ہیں اکثر حادثات تیزرفتاری کے سبب خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے پیش آتے ہیں ان حادثات میں بھی کئی لوگ جاں بحق ہوتے ہیں۔
سوال: پاکستان سے ڈنکی لگا کر یورپ جانے والے افراد اورکس قسم کی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:ڈنکی لگا کر یورپ جانا ،زندگی اور موت کا کھیل ہے جو اس میں کامیاب ہوتا ہے وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے جو ناکام ہوتا ہے وہ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ ڈنکی لگا کر یورپ جانے والے افراد کو ہر قدم پر مشکلات اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران اور ترکی میں غیر قانونی طور سفر کرتے ہوئے ان افراد کا واسطہ ایسے قبائل سے بھی پڑتاہے جو کہ ذرا سی بات پر ان کو مار ڈالتے ہیںان میں قابل ذکر ترکی، ایران اور عراق میںموجو کرد قبائل ہیں جو کہ خود علیحدگی چاہتے ہیں یہ کسی اجنبی کو اپنے علاقے میں برداشت نہیں کرتے۔ اور ان تارکین وطن کو ان کے علاقوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔یہ علاقے موت کی وادی کہلاتے ہیںان کے علاوہ علیحدگی پسند تنظیموں اور فرقہ پرست دہشت گرد وں کی جانب سے دوسرے فرقے کے لوگوں کو ڈھونڈ کر مار دینے کا خطرہ علیحدہ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے۔ ایران اور ترکی کی سرحد پر پہاڑی علاقوں میں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے موسمیاتی خرابی، شدید سردی اور گنداپانی پینے سے کوئی شخص بیمار پڑ جائے تو اگر وہ یورپ کا سفر ادھورا چھوڑ کر واپس جانا چاہئے تو انسانی اسمگلر (ڈنکر) اس کو جان سے مار دیتے ہیںانانسانی اسمگلروں کوواپس جانے والوں سے دو خطرے ہوتے ہیں ،ایک تو یہ کہ واپس جانے والاپنجاب والے ایجنٹ کو پکڑوا نہ دے ،دوسرا جو پوری رقم انہوں نے ایڈوانس میں لی ہوتی ہے ،وہ واپس نہ کرنی پڑ جائے چناچہ وہ ایسے افراد کو باقی لوگوں کے سامنے کسی پہاڑ سےدھکا دے دیتے ہیں یا گولی مار دیتے ہیں کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں اور واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں۔کئی پاکستانی ترکی میں اغوا بھی ہوئے جہاں ان کی ویڈیوز بنا کر ان کے گھر والوں کو بھیجی گئیں کہ پیسے بھیجیں۔انسانی اسمگلر اکثر ظلم کرتے ہیں۔ پیسے چھین کر گھر والوں سے مزید پیسے منگوانے کو کہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں تبھی آگے بھیجیں گے۔جنگل میں لٹیرے بھی ملتے ہیں جو چیزیں چھین لیتے ہیں۔کچھ لوگ ڈر کر، کچھ بھوک سے مر جاتے ہیں،کچھ پہاڑوں سے گر کر مر جاتے ہیں۔سرحدی فورسز کی جانب سے پکڑے جانے والے لوگوں پر جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔ ہنگری کی سرحد پر فورسز لوگوں پر تربیت یافتہ کتے چھوڑ دیتے ہیں۔ سردی میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے کی تارکین وطن کے جسمانی اعضا کو اتنا نقصان پہنچا کہ کاٹنے پڑے۔ جو لوگ مر جاتے ہیں ڈنکر انھیں وہیں کہیں جنگل میں پھینک جاتے ہیں کیونکہ وہ لاش ساتھ لے جانے کا رسک نہیں لے سکتے۔اسی لیے میں کہتاہوں کے ڈنکی لگا کر یورپ جانا خود کشی ہے۔
سوال:یقینی طور پرڈنکی لگا کر یورپ پہنچنے والے افراد سکھ کا سانس لیتے ہوں گے؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:یہ تو بس خام خیالی ہے۔ یورپ پہنچ کر کئی سال تک ہم چھپ کر کام کرتے ہیں۔ ہمیں توہماری محنت کی پوری اجرت تک نہیںملتی۔مالک کا جب دل کرتا ہے اورجتنا دل کرتا ہے وہ پیسے دے دیتا ہے کیونکہ انھیں بھی پتا ہوتا ہے کہ یہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔کئی لوگ چھ، سات مہینے تک کام کرتے ہیں، انھیں اجرت نہیں ملتی لیکن وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کر سکتے۔ ہم پاکستان سے توبڑے بڑے خواب لے کر یورپ جاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت بڑی المناک ہوتی ہے۔
سوال: تو پھر سکھ اور چین کب نصیب ہوتا ہے؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:جس دن ہماری دستاویز بن جاتی ہیں اور ہم لیگل ہوجاتے ہیں ،تو ہمیں اچھی نوکری بھی مل جاتی ہے اور پھر اس کام کی اجرت بھی پوری ملتی ہے جب ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں تو ہمیں ہروہ سہولت ملتی ہے جو یورپ کے شہریوں کو ملتی ہے ،پھر جا کر سکون نصیب ہوتا ہے۔
سوال: آج کے جدید دور میں بھی جو نوجوان ڈنکی لگا کر یورپ جانے کے خواہش مند ہیں آپ ان کو کیا مشورہ تجویز کریں گے؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:نوجوان نسل ڈنکی لگا کر یا پھر اور کسی غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی بجائے قانونی راستہ اپنائیں۔ اس طرح اگر ویزا نہیں بھی لگتا تو صرف ویزا فیس کی مد میں رقم ضائع ہو گی کم ازکم آپ کی جان تو محفوظ رہے گی۔اس کے علاوہ میں نوجوان نسل کو مشور دیتا کرتا ہوں کہ آپ خود کو کسی ہنر سے آراستہ کریں کیونکہ جب آپ کسی بھی ملک جائیں گے وہاں پر نوکری کیلئے پہلی ترجیح ہنرمند افراد کو دی جاتی ہے۔ لہٰذاتعلیم حاصل کرنے کےساتھ ساتھ ہنر مند بنیں ۔حکومت کو بھی چاہئے کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو فروغ دیں ،زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو ہنر مند بنائیں اور اووسیز اپلائمنٹ کے ذریعے نوجوان نسل کو باعزت طریقے سے بیرون ملک بجھوایا جائے۔
سوال: اچھا یہ بتائیں کے اوورسیز پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس:پاکستان سےہزاروں لوگ ڈنکی لگا کر موت سے جیت کر یورپ پہنچتے ہیں اور پھر وہاں پر دن رات انتھک محنت کرکے پیسے کماتے ہیں۔وہ ان پیسوں سے اپنے آبائی وطن پاکستان میں زمین اور جائیداد یں خریدتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی املاک پر قبضہ ہو جاتا ہے، پاکستان میں لینڈ مافیا بہت فعال اور حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے گروہ متحرک ہیں جو کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جمع پونجی کھا جاتے ہیں۔ملک میں منظم قبضہ گروہ ہیں جنہیں با اثر افراد کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات تو ایسے افراد کی سیاسی وابستگیاں بھی ہوتی ہیں۔ جائیدادوں پر قبضوں کے واقعات میں قریبی رشتے داروں کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اور محکمہ مال کے افراد بھی ان کی معاونت کرتے ہیں۔زمینوں پر قبضے کے لیے جعل سازی سے نقلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں اور زمینوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اوورسیز پاکستانی ملک سے باہر اس ساری صورت حال سے لا علم ہوتے ہیں۔ دوسری جانب کوئی عام شہری نقلی کاغذات پر جائیداد خرید لیتا ہے اور پھر دونوں ایسے افراد آپس میں قانونی معاملات میں الجھ جاتے جنہیں قبضہ گروہ نے دھوکا دیا ہوتا ہے۔پاکستان میں زمینوں پر قبضے کے قانون کو سخت کرنے اور سزائیں بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ قانون میں قبضہ گروپوں کی سزا بہت معمولی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی سے نئے سرے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قابضین کو سخت سزائیں ملنی چاہئیں کیوں نکہ لینڈ مافیا کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اوورسیز پاکستانیوں کی املاک ان کیلئے آسان ترین ہدف ہیں۔
سوال: حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانی کی جائیداد پر قبضہ کی صورت میں آن لائن پورٹل پر رابطہ کرکے اپنی شکائت کا درج کرانے کی سہولت میسر کر رکھی ہے کیا اس سے اوورسیز پاکستانیوںکو انصاف نہیں ملتا؟
داﺅدسلیمان جاوید پرنس: بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آن لائن پورٹل کی سہولت میسر ہیں۔جس پر اوورسیز پاکستانی اپنی درخواست رجسٹر کرا تے ہیںاور وہ اپنی ملکیت سے متعلق دستاویزات بھی اس پر اپ لوڈ کر تے ہیں لیکن اس کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں کو انصاف نہیں ملتا۔ اوور سیز پاکستانی اپنے خون پسینے کی کمائی پاکستان بجھواکرپاکستانی معیشت کومضبوط بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں موجود ان کی زمینوں اور جائیدادوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیںہے۔پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کی املاک کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سخت قانون سازی کرے۔