نوٹ( اسپڈگن حارث روف کا انٹرویو ورلڈکپ 2023 کےلئے انڈیا جانے سے پہلے کیا گیا )
پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے ساتھ والے محلے میں 7 نومبر 1993میں پیدا ہونے والے فاسٹ باﺅلر حارث روف لاہور قلندرز کے پلیئر ڈولپمنٹ پروگرام سے ابھرکر سامنے آئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر قومی ٹیم میں جگہ بنائی۔حارث رﺅف جو پاکستان کرکٹ ٹیم کی بولنگ لائن اپ کے اہم باﺅلر تصور کئے جاتے ہیں اور اپنی انفرادی کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم کو کئی میچ جتوا چکے ہیں۔ وہ کرکٹر بننے سے پہلے کیا کرتے تھے اور اس مقام تک پہنچنے کیلئے
انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے اس کا انکشاف انہوں نے محمد قیصر چوہان کو خصوصی انٹرویو دینے کے دوران کیا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ باﺅلر حارث رﺅف نے بتایا کہ میںراولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے ساتھ والے محلے میں ایک غریب گھر میں پیدا ہوا۔۔ہم سات بہن بھائی ہیں میں سب سے بڑاہوں۔میرے ابو کا نام عبدالرﺅف ہے ان کی ویلڈنگ کی دوکان تھی،میرے والد ویلڈنگ کا کام کرکے گھر کی کفالت کرتے تھے۔ہماری جوائنٹ فیملی تھی ،تین چچا بھی اسی چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے ۔ میرے ابو چونکہ سب سے بڑے ہیں اسی لیے جیسے کسی چچا کی شادی ہوتی توان کو ایک کمرہ دے دیتے جب سب چاچوں کی شادی ہو گئی تو ایسے حالات بھی آگئے کہ ہمیں کچن میں بھی سونا پڑا۔والدین کی خواہش تھی کی میں پڑھ لکھ کر افسر بنوں لیکن مجھے بچپن ہی سے
کرکٹ کھیلنے کا جنون تھا۔چھے سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیاتھا۔کرکٹ کھیلنے پر والد محترم سے خوب پٹائی ہوا کرتی تھی۔کئی مرتبہ ایک دن میں تین بار ابو سے پٹائی ہوا کرتی تھی۔پچپن میں کبھی گھر کی چھت پرتو کبھی گلی میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ ایک گلی میں کرکٹ کھیلنے سے منع کیا جاتا تودوسری گلی میں اور وہاں سے تیسری گلی میں چلے جاتے تھے۔جب ہم چھت پرکرکٹ کھیلتے تھے تو سامنے والی آنٹی کھیلنے سے منع کرتی تھیں،جب ان کے دروازے پر بال لگتی تھی تو وہ شور مچاتی ہوئیں باہر آتی تھیں اور ہمیں خوب گالیاں نکاتی تھیں ہم اس کے آتے ہی نیچے بھاگ جاتے تھے ۔ جب تھوڑے سے بڑے ہوئے توچھٹی والے دن فجر کی نماز پڑھنے
کے بعد محلے میں لڑکوں کے ساتھ مل کر ڈبل وکٹ ٹورنامنٹ منعقد کیا کرتے تھے ۔کرکٹ کھیلنے پر ابو سے دن میں تین چار مرتبہ تو پٹائی ہو جاتی تھی۔مار کھانے کے باوجود کرکٹ کھیلتا تھا۔بچپن چند ددست مجھے باﺅلنگ نہیں کرانے دیتے تھے وہ کہتے تھے کہ یار حارث ٹم وٹا مارتے ہو۔اسکول کے زمانے میں گھر سے پڑھنے کیلئے جاتا تھا میرا کرکٹ کھیلنے کا سامان میرے ایک دوست کے گھر ہوتا تھا وہاں سے سامان لے کر میں اپنے شوق کی تکمیل کیلئے سیدھا گراﺅنڈکا رخ کرتا تھا۔میچ کھیلنے کے بعد پھر واپس دوست کے گیراج میں جا کرا سکول کی یونیفارم پہن کر گھر چلا جاتا تھا۔ابو کہتے تھے کہ تم اکثر سکول سے لیٹ آتے ہو تو ،جب انہیں پتہ چلا کہ میں تو اکثر سکول جاتا ہی نہیں ہوں اور کرکٹ کھیلتا رہتا ہوں تو پھر ابو سے خوب پٹائی ہوتی تھی۔کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ اپنی
تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہتا تھا کیونکہ میں آرمی آفیسر بننا چایتا تھا،میں نے پی ایم اے لانگ کورس 135 اور 136 دیا ہے۔آرمی آفیسر بننے کے شوق میں پڑھتا تھا،میٹرک میں تھا تو اسکول اور پھر ٹیوشن فیس ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے تو میں اتوا بازار میں نمکو فروخت کرکے فیس کیلئے پیسے جمع کرتا تھا۔ہراتوار کو یہ کام کرتا تھا۔پھر کالج کے دور میں اڑھائی سوروپے دھاڑی پرپنو راما سینٹر راولپنڈی میں سیلزمین کی نوکری بھی کی۔بعد ازاں
میں نے راولپنڈی میں ایک موبائل شاپ پر سیلز مین کی نوکری کرنا شروع کردی تھی۔میں ان دنوں ٹیپ بال کرکٹ میں حارث اسلام آبادی کے نام سے مشہور تھا۔میں ٹیپ بال سے اس لیے کھیلتا تھا تاکہ اپنی یونیورسٹی کی فیس نکال سکوں۔ میرے والد اس قابل نہیں تھے کہ مجھے پڑھا سکتے۔ پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹرز مہینے کے دو ڈھائی لاکھ روپے آسانی سے کمالیتے ہیں۔میں ٹیپ بال کا ایک میچ کھیلنے کا پانچ ہزار سے بیس ہزار روپے لیتا تھا۔ اپنی اس کمائی کے بارے میں والد کو نہیں بتایا تھا لیکن امی کو پیسے دیتا اور باقی پیسے جمع کرلیتے تھا کیونکہ والدہ کی خواہش تھی کہ ہمارا اپنا گھر ہو۔
میرے ابو نے مجھے ایک کام کہا ،میں ٹیپ بال میچ کھیلنے چلا گیا اور وہ کام بھول گیا جب گھر واپس آیا تو دیکھا تو کالج سمیت ٹیپ بال کرکٹ ٹورنامنٹس میں انعام کی مد میں ملنے والی ٹرافیاں غائب تھیں، ابو نے غصے میں آکرانہیں توڑ کرکچرے والے ڈبے میں پھینک دی تھیں،مجھے بڑا ہی دکھ ہوا، یہ دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئی،کیونکہ میں نے اتنی محنت سے یہ انعامات حاصل کئے تھے۔جب پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے کھیلا تو ابو نے پٹائی کرنا بند کرکے میری کوچنگ شروع کردی، اب ابو مجھے باﺅلنگ ٹپس دیتے ہیں۔ٹیپ بال کرکٹ میں خرم چکوال ،عمر بھائی آف شیخوپورہ اورتیمور مرزابڑے ہی اچھے بلے بازاچھے بلے باز تھے ،ان کو آﺅٹ کرنا بڑا ہی
چیلنجنگ ہوتا تھا۔جب ٹیپ بال سے بطور پروفشنل کرکٹ کھیلتا تھا تو اکثر ٹیمیں مجھے معاوضہ ادا کرکے اپنی ٹیم کی طرف سے کھلاتے تھے ،کرکٹ کھیلنے کیلئے پیدل جاتا تھا لیکن واپسی پر ہمیشہ ٹیکسی پر آتا تھا۔پاکستان بھر میں ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلتا تھا ، گھر والے سمجھتے تھے کی میں اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد کے ہوسٹل میں بیٹھا پڑھائی کر رہا ہوں ، لیکن میں کسی نہ کسی شہر میں ٹیپ بال کرکٹ ٹورنامنٹ کے میچز کھیل رہا ہوتا تھا۔اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد سے آئی ٹی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا،ابھی چھے سمسٹر پڑھے تھے کہ اسی دوران لاہور قلندر کی ٹیم میں شامل ہو گیا،اور یوں پڑھائی ادھوری رہ گئی۔
لاہور قلندر ز کرکٹ ٹیم نے2017میں گوجرانوالہ کرکٹ اسٹیڈیم میں ٹرائلزرکھے تھے تو ایک دوست مجھے ٹرائل دینے کیلئے گوجرانوالہ ساتھ لیکر گیا اس وقت میرے پاس اسپائیکس شوز تک نہیں تھے ۔ وہی ٹیپ بال کھیلنے
والے جوگر تھے۔ان دنوں میں بطور سیلز مین کام کرتا تھا، ہم صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب جب میں گوجرانوالہ اسٹیڈیم پہنچے تو گیٹ بند ہو چکے تھے ۔ٹائم ختم ہو چکا ہے آپ اندر نہیں جا سکتے ۔ہم دوسرے گیٹ کی طرف چلے گئے تو وہاں پر تالا لگا ہوا تھا وہاں پر موجود چند لڑکوں نے مل کر وہ تالا توڑ ا ،اور اسٹیڈیم کے اند گھس گئے تو دیکھا واقعی ہی اندر بے پناہ رش تھا،کوئی بیس ہزار کے قریب لڑکے ترائلز دینے آئے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اتنے سارے لڑکوں میں مجھے اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع مشکل سے ہی ملے گا۔لیکن میں نے ارداہ کرلیا تھا کہ اگر مجھے موقع ملا تو اپنا بیسٹ پرفارمنس دینے کی پوری کوشش کروں گا۔میرے ساتھ آنے والے ساتھی کرکٹر چوتھے راﺅنڈ میں فارغ ہو گئے اور پھرمیرے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگے۔میں فائنل راﺅنڈ تک پہنچ گیا۔اس میں آٹھ فاسٹ باﺅلرزسلیکٹ ہوئے تھے اب اسپیڈ گن بھی لگی ہوئی تھی ۔جو لڑکے 84 میل کی رفتار سے باﺅلنگ کر رہے
تھے انہیں الگ بٹھا دیا گیا تھا کہ یہ سلیکٹ ہیں۔میں نے اپنا پہلا گیند ہی 88 میل کی رفتار سے کیا۔طاہر مغل صاحب کے پاس اسپیڈ گن تھی انہوں نے عاقب جاوید صاحب کو بلایا اور پھر مجھے دوبارہ گیند کرنے کیلئے کہا گیا تو میں نے دوسرا گیند 90 میل کی رفتار سے کردیا تو عاقب بھائی نے تیسرا گیند کرنے کو کہا تو وہ میں نے 92.03 پر کردیاتو لاہور قلندر کے پلیئر ڈوپمنٹ پروگرام میں مجھے سلیکٹ کر لیاگیا۔ میں گوجرانوالہ سے گھر جاتے ہوئے کافی لوگوں کی فون کال آئی تو میں حیران تھا کہ آخر میں نے ایسا کردیا ہے کہ لوگ مجھے فون پر فون کررہے ہیں۔لاہور قلندر کے پلیئر ڈویلمنٹ پروگرام میں سلیکٹ ہونے کے بعد میں نے ٹیپ بال کرکٹ کھیلنا بند کردی تو آرگنائزرز کی طرف سے کافی پرکشش آفرز ملنے لگی لیکن میں نے انکار کردیا۔لاہور قلندرز کے ٹرائلز میں سلیکٹ ہونے کے بعد والد نے مجھے باقاعدہ کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی۔ جب میں ٹیپ بال کرکٹر تھا تومیرا وزن 70 کلو گرام تھا، عاقب بھائی نے کہا کہ حارث تمہیں اپنا وزن 83 کلو گرام تک لے کر جانا ہے۔میرے گھر والوں کو لاہور قلندز نے
اسکالر شپ دی ، میں عاقب بھائی سے ہارڈ بال سے فاسٹ باﺅلنگ کی باریکیاں سیکھنے لگا۔فیلڈنگ کوچ شہزاد بٹ سے فیلڈنگ بہتر بانے کا فن سیکھنے لگا۔میں نے اپنا وزن بڑھایا ، مسل کو مضبوط بنائے، فاسٹ باﺅلرز کیلئے غذا کا استعمال بڑا ہی اہم ہوتا ہے۔سخت محنت کی وجہ سے قدرت مہربان ہوئی ، میں باﺅلنگ ، فیلڈنگ اور بیٹنگ کی تین گھنٹے تک پریکٹس کرتا ہوں ،جم ٹریننگ بھی کرتا ہوں۔عاقب جاوید کے علاوہ وقار یونس سے بھی فاسٹ باﺅلنگ کے حوالے سے کافی کچھ سیکھاہے۔ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف نے کہا کہ ٹیپ بال کرکٹ سے ہارڈ بال کی طرف سفٹ ہونے میں کافی مشکلات پیش آئیں ،ہارڈ بال سے باﺅلنگ شروع کی تو بازو اور کہنی میں درد ہونے لگا تو عاقب بھائی نے کہا کہ زیادہ باﺅلنگ مت کرو ،پھر فزیکل فٹنس کو بہتر بنانے کیلئے جم ٹریننگ شروع
کردی۔ مسل کو مضبوط بنانے کیلئے عاقب بھائی نے مشورہ دیا کہ 20 انڈےوں کی سفیدی روزانہ کھانی ہے،ایک سال میں سخت محنت کی اس کے بعد لاہور قلندر کی ٹیم میں شامل ہوا۔ آسٹریلیا گیا وہاں پر ہاکس بری کرکٹ کلب میں چھے ماہ تک ٹریننگ کی۔بگ بیش لیگ میں 8 جنوری 2020 کو سڈنی تھنڈر ٹیم کے خلاف بھی ہیٹ ٹرک کی تھی۔ ڈیل اسٹین میلبورن اسٹار کو ایک میچ کیلئے میسر نہیں تھے توایک میچ کیلئے مجھے ان کی جگہ پر ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔میں نے سڈنی تھنڈر ٹیم کے خلاف ہیٹرک کی تھی۔ڈیل اسٹین میرا آئیڈیل فاسٹ باﺅلرہے۔ اسی دوران مجھے وہاں پر موجود ایک کرکٹ کلب کے مالک نے چھے ماہ کا پورا سیزن کھیلنے کی آفر کی تو میں نے کہا کہ آپ عاقب جاوید سے بات کریں۔تو عاقب بھائی کی اجازت سے میں نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اور پھر اپنے پہلے ہی میچ میں چھے کھلاڑیوں کو آﺅٹ کیا۔اسی میچ میں انجری کے باعث ڈیڑھ ماہ تک کرکٹ سے دور
ہو گیا تھا ،ان فٹ ہونے کی وجہ مسلسل باﺅلنگ کرنا تھا۔پھر میں نے فزیکل فٹنس پر مزید توجہ دی۔جم جاناشروع کردیا۔ سڈنی میں ملتان کی ایک فیملی نے مجھے بیٹا بنایا ہوا ہے ،جب بھی آسٹریلیا جاتا ہوں تو سڈنی ضرور جاتا ہوں ، اس فیملی کے ساتھ ابھی تک رابطے میں ہوں ۔پہلی بار ملک سے باہر آسٹریلیا گیا تھا۔میں آسٹر یلیا میں تھا تو ان دنوں انڈیا کی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر آئی تھی میں نے بطور نیٹ باﺅلر انڈین بلے بازوں کو کافی دیر تک باﺅلنگ کی تھی۔ویرات کوہلی نے میری اسپیڈ اور باﺅلنگ کی کافی تعریف کی تھی۔ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف نے کہا کہ 2018 کے پی ایس ایل میں مجھے بطور نیٹ باﺅلر کے طور پر لاہور قلندرز ٹیم کو پریکٹس کرائی تو برینڈن میکولم میری باﺅلنگ دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے انہوں نے عاقب بھائی سے ملاقات کرکے میری باﺅلنگ کی تعریف کی جب عاقب بھائی نے بتایا کہ یہ اسکواڈ میں نہیں ہے تو وہ کافی ناراض ہوئے،میکولم نے کیا یہ لڑکا تو میری پلیئنگ الیون میں شامل ہے۔میں بھی کھیلنے کیلئے بڑا بے تاب تھا لیکن عاقب
بھائی نے مزید ایک سال انتظار کرنے کا کہا۔میں نے دو سال کیلئے بڑی محنت کی ، جس کا صلہ مجھے لاہور قلندر

پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ باﺅلر حارث رﺅف نے بتایا کہ میںراولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے ساتھ والے محلے میں ایک غریب گھر میں پیدا ہوا۔۔ہم سات بہن بھائی ہیں میں سب سے بڑاہوں۔میرے ابو کا نام عبدالرﺅف ہے ان کی ویلڈنگ کی دوکان تھی،میرے والد ویلڈنگ کا کام کرکے گھر کی کفالت کرتے تھے۔ہماری جوائنٹ فیملی تھی ،تین چچا بھی اسی چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے ۔ میرے ابو چونکہ سب سے بڑے ہیں اسی لیے جیسے کسی چچا کی شادی ہوتی توان کو ایک کمرہ دے دیتے جب سب چاچوں کی شادی ہو گئی تو ایسے حالات بھی آگئے کہ ہمیں کچن میں بھی سونا پڑا۔والدین کی خواہش تھی کی میں پڑھ لکھ کر افسر بنوں لیکن مجھے بچپن ہی سے



میں نے راولپنڈی میں ایک موبائل شاپ پر سیلز مین کی نوکری کرنا شروع کردی تھی۔میں ان دنوں ٹیپ بال کرکٹ میں حارث اسلام آبادی کے نام سے مشہور تھا۔میں ٹیپ بال سے اس لیے کھیلتا تھا تاکہ اپنی یونیورسٹی کی فیس نکال سکوں۔ میرے والد اس قابل نہیں تھے کہ مجھے پڑھا سکتے۔ پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹرز مہینے کے دو ڈھائی لاکھ روپے آسانی سے کمالیتے ہیں۔میں ٹیپ بال کا ایک میچ کھیلنے کا پانچ ہزار سے بیس ہزار روپے لیتا تھا۔ اپنی اس کمائی کے بارے میں والد کو نہیں بتایا تھا لیکن امی کو پیسے دیتا اور باقی پیسے جمع کرلیتے تھا کیونکہ والدہ کی خواہش تھی کہ ہمارا اپنا گھر ہو۔


لاہور قلندر ز کرکٹ ٹیم نے2017میں گوجرانوالہ کرکٹ اسٹیڈیم میں ٹرائلزرکھے تھے تو ایک دوست مجھے ٹرائل دینے کیلئے گوجرانوالہ ساتھ لیکر گیا اس وقت میرے پاس اسپائیکس شوز تک نہیں تھے ۔ وہی ٹیپ بال کھیلنے






زکی جانب سے پی ایس ایل کھیلنے کی صورت میں ملا۔ پہلے ہی میچ میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ ملا تو خوشی کے مارے آنسو نکل پڑے تھے۔ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف نے کہا کہ ٹی ٹوینٹی اور ون ڈے میچوں میں ڈیتھ اوورز میں بیٹرز ہر گیند پر ہٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے، میری بولنگ مڈل اور ڈیتھ اوورز میں ہی آتی ہے جہاں بطور بولر کوشش ہوتی ہے کہ وکٹ لینے کی بجائے ڈاٹ بالز پر فوکس کروں کیوں کہ اس موقع پر بیٹر ہر گیند کو ہٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے میں ڈاٹ بال کرانا اہم ہے، کوشش کرتا ہوں کم سے کم رنز دوں، ہوتا ہے کبھی خراب بولنگ ہوجاتی ہے، کبھی اچھا شاٹ لگ جاتا ہے، ضروری ہے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھا جائے۔جب ڈاٹ ہوتی ہیں تو وکٹ لینے کا چانس بن جاتا ہے کیوں کہ ڈاٹ بال زیادہ ہوجائے تو بیٹسمین خود کو دباﺅ سے نکالنے کیلئےغیرضروری شاٹس مارنے کو بے تاب ہوتا ہے اور غلطی کر جاتا ہے۔ ڈاٹ بالز کرانے کیلئے اہم ہتھیار یارکر
ہے، اس لئے اس پر انحصار کرتا ہوں۔ اگر کبھی گیند رک کر آرہا ہو تو میںسلوور ون کا بھی سہارا لیتا ہوں۔ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف نے کہا کہ حریف بلے باز کو آﺅٹ کرنے کے بعد جارحانہ پن نیچرل ہوتا ہے،جارحانہ پن فاسٹ باﺅلنگ کا حسن ہے ،ڈیل اسٹین وکٹ لینے کے بعد جس طرح کا جارحانہ پن دکھاتے تھے اس نے میرے اندر کے جارحانہ پن کو اُبھارا ۔ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف نے کہا کہ لیگز کرکٹ کھیلنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آپ کو انٹرنیشنل کرکٹ لیول کا تجربہ مل جاتا ہے۔دو ورلڈ کپ کھیلے ہیں ، اب تھوڑا سا میچوار ہو گیا ہوں۔ وکٹ اور بلے باز کو مد نظر رکھتے ہوئے فیلڈنگ کھڑی کرتا ہوں۔اگر غلطی ہو جائے تو سر پر ہاتھ رکھ لیتا ہوں ۔شاہین آفریدی کے ساتھ باﺅلنگ کرنا اچھا لگتا ہے ،ہمرا رشتہ بھائیوں جیسا ہے ہم ایک دوسرے کو بھر پور سپورٹ کرتے ہیں۔مجھے میرے رول کے بارے میں پتہ ہے۔ایک سوال کے جواب میںحارث روف نے کہا کہ دنیا بھر میں کرکٹ کھیل چکا ہوں لیکن بابر اعظم اور ویرات کوہلی کو آوٹ کرنا سب سے مشکل کام لگا وہ اچھی بالز کو بھی تحمل کے
ساتھ باونڈری لائن تک پہنچادیتے ہیں۔میرے پسندیدہ بلے بازوں میں بابر اعظم ، ویرات کوہلی ، جوئے روٹ اورکین ولیم سن شامل ہیں۔ جبکہ میرے پسندیدہ باﺅلرز میں ڈیل اسٹین اور شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں۔ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف کا کہنا تھا کہ پہلے جب لڑکیاں تنگ کرتی تھیں تو اچھا لگتا تھا لیکن شادی کے بعد اب یہ چیزیں اچھی نہیں لگتیں،شادی کے بعد زندگی میں کچھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ الحمداللہ، اہلیہ میرے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی ہیں۔میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنی محنت کے ساتھ ساتھ لاہور قلندر کی وجہ سے ہوں،ثمین گل اور عاقب جاوید نے مجھے کرکٹ اسٹار بنانے میں بڑی محنت کی ہے۔لاہور قلندرز کے پلیٹ فارم سے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) تک پہنچا پھر وہاں اپنی شاندار پرفارمنس سے پاکستان کرکٹ ٹیم تک پہنچا ہوں۔لاہور
قلندر کے ساتھ آخری سانس تک رشتہ برقرار رہے گا۔بنگلہ دیش کے خلاف انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا تجربہ بلکل مختلف تھا،پہلا اوور کرتے ہوئے تھوڑا سا نروس تھا ، بس زہین میں یہی تھا کی اب کچھ کرکے دکھانا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف نے کہا کہ اللہ پاک کے خاص فضل و کرم سے اب میرے پاس ایک گھر اور گاڑی ہے۔ جب میں نے گاڑی خریدی تو میرے والد رونے لگے اور کہا کہ ان کی اس گاڑی میں بیٹھنے کی بھی حیثیت نہیں ہے۔ اگر میرا خاندان خوش ہے تو میں خوش ہوں، یہ میرے لیے بہت فخر کی بات ہے۔پاکستان کیلئے کھیلنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا ایک دن پاکستان کیلئے کھیلوں گا ، جو والد پہلے کرکٹ کھیلنے پر پٹائی کرتے تھے وہ اب باﺅلنگ ٹپس دیتے ہیں تو بڑا اچھا لگتاہے۔



ایک سوال کے جواب میں حارث رﺅف نے کہا کہ اللہ پاک کے خاص فضل و کرم سے اب میرے پاس ایک گھر اور گاڑی ہے۔ جب میں نے گاڑی خریدی تو میرے والد رونے لگے اور کہا کہ ان کی اس گاڑی میں بیٹھنے کی بھی حیثیت نہیں ہے۔ اگر میرا خاندان خوش ہے تو میں خوش ہوں، یہ میرے لیے بہت فخر کی بات ہے۔پاکستان کیلئے کھیلنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا ایک دن پاکستان کیلئے کھیلوں گا ، جو والد پہلے کرکٹ کھیلنے پر پٹائی کرتے تھے وہ اب باﺅلنگ ٹپس دیتے ہیں تو بڑا اچھا لگتاہے۔
