لاہور(خصوصی انٹرویو: محمد قیصر چوہان)
گھر کا ٹی وی فروخت کر کے کرکٹ کاسامان خریدنے والے محمد رضوان اب دنیا کے اسٹار پلیئر ہیں ۔وکٹ کیپرز کسی بھی ٹیم کیلئے اہم ترین پوزیشن کے حامل ہوتے ہیں جنہیں نہ صرف وکٹوں کے عقب میں اپنا فاتح کردار نبھانا ہوتا ہے بلکہ وکٹوں کے آگے بیٹسمین کے طور پر بھی ان کی صلاحیتوں کی اتنی ہی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دور جدید میں ایسے وکٹ کیپرز کی اہمیت زیادہ تسلیم کی جاتی ہے جو وکٹ کیپنگ کے علاوہ بیٹنگ بھی کر سکتے ہوں اس لحاظ سے آج کل ہر ٹیم کے پاس وکٹ کیپر بیٹسمین موجود ہیں جو وکٹ کیپنگ کے علاوہ اچھی بیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ پاکستان کرکٹ کی خوش قسمتی رہی ہے کہ اسے امتیاز احمد، وسیم باری، تسلیم عارف، سلیم یوسف سے لے کر راشد لطیف اور معین خان تک اچھے وکٹ کیپرز بیٹسمین ملتے رہے ہیں راشد لطیف اور معین خان کی قومی ٹیم سے علیحدگی کے بعد کامران اکمل کی صورت میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو بہترین وکٹ کیپر ملا اس کے بعد سرفراز احمدنے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔اسی دوران ذوالقرنین حیدر ، محمد سلمان، عدنان اکمل ،عمر اکمل نے بھی قومی ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے وکٹ کے عقب میں عمدہ پرفارم کیا۔ سرفراز احمد کے متبادل کے طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے صوبہ خیبرپختوانخواہ کے تاریخی شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے محمد رضوان پر توجہ دی ۔اس نوجوان وکٹ کیپر بلے باز نے موقع ملتے ہی تمام فارمیٹ میں وکٹوں کے پیچھے اور آگے بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کرکے اپنی سلیکشن کو درست قرار دے دیا۔یکم جون 1992 کو پشاور میں پیدا ہونے والے محمد رضوان تینوں فارمیٹ میں قومی ٹیم کے اہم ترین کھلاڑی اور پاکستان کے نمبر ون وکٹ کیپر بیٹسمین ہیں۔” زی“ کی عرفیت سے مشہور محفوظ اور مضبوط ہاتھوں کامالک ایک ایسا وکٹ کیپر بیٹسمین ہے جو بیٹنگ کے فن میں بھی مکمل دسترس رکھتا ہے۔ مہارت، مستعدی، ثابت قدمی اور جرا ت مندی کے ساتھ صاف ستھری اور خامیوں سے پاک وکٹ کیپنگ کرنے والے محمد رضوان کی کٹھن حالات میں اہلیت سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت اسے دوسرے کھلاڑیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ عمدہ اور اعلیٰ معیار کا کھلاڑی بننے کی صلاحیت سے بڑھ کر بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے اور اس پرجوش کھلاڑی میں مضبوط کردار، جرات اور سچی لگن بدرجہ اتم موجود ہے وہ بے حد یکسو ہے اور کسی بھی صورتحال میں ہمت نہیں ہارتا۔ اس کی اپروچ مثبت اور جارحانہ ہے اس کے ریفلیکسز کمال کے ہیں اور اس کاٹمپرامنٹ بھی بے مثال ہے، خود اعتمادی اور ذہنی مضبوطی اس کے اہم ہتھیار ہیں جن کے بل بوتے پروہ وکٹوں کے عقب میں اپنے فرائض بڑی مہارت کے ساتھ ادا کرتا ہے جبکہ وہ وکٹوں کے آگے بہترین باﺅلرز کے خلاف ہک، پل، کٹ، کور ڈرائیوز سمیت ہر شارٹ بڑی عمدگی اور مہارت سے کھیلتا ہے۔ محمد رضوان محب وطن اور کھیل سے جنون کی حد تک محبت بلکہ عشق کرنے والا نوجوان ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی آر نہیں کہ رضوان کی شکل میں پاکستان کو راشد لطیف کی طرح کا خداد اد صلاحیتوں کامالک وکٹ کیپر مل چکا ہے جو تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔نوجوان وکٹ کیپر نمبر پاکستان کرکٹ ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھنے والے بیٹسمین”ہردل عزیز کھلاڑی "محمد رضوان "کا ورلڈ کپ میں انڈیا جانےسے پہلےwww.tariqjaveed .comکو خصوصی انٹرویو
سوال:ورلڈ کپ کے حوالے سے کیا ہدف بنایا ہے؟
محمد رضوان:ورلڈ کپ میں ہر ٹیم ٹرافی جیتنے کا عزم لیے میدان میں اترتی ہے۔ ہماری ٹیم بڑی ہی بیلنس ہے ،تمام کھلاڑی عمدہ کارکردگی دکھانے کیلئے بڑے بے چین ہیں۔ بھارت سمیت تمام حریف ٹیموں کے خلاف ورلڈکپ میچ کو عام سمجھ کر میدان میں اتریں گے کیونکہ میگا ایونٹ کا پریشر ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے۔ہم سب ورلڈ کپ جیت کر پاکستان واپس لوٹنے کا سوچ رہے ہیں۔
سوال :نسیم شاہ کی غیرموجودگی پر کیا کہیں گے؟
محمد رضوان:نسیم شاہ بہترین فاسٹ باﺅلر ہے ، ان کی موجودگی میں ہمارا اٹیک حریف ٹیموں کیلئے بڑا ہی خطرناک ثابت ہوتا ، بدقسمتی سے وہ انجری کی وجہ سے ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل نہیں ہے اس کا فرق تو پڑے گا۔لیکن اس کے باوجود ہمارا باﺅلنگ اٹیک مضبوط ہے ۔حسن علی بھی ایک بہترین باﺅلر ہیں اُمید ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں اپنی بیسٹ پرفامنس دے گا۔
سوال :دبئی میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں روایتی حریف بھارت سے یادگار فتح کے بعد ویراٹ کوہلی نے جب گلے لگایا تھا تو کیسا لگا تھا؟
محمد رضوان: میدان میں بھارت سمیت حریفوں ٹیموں کے خلاف صرف جیت پر نظر ہوتی ہے،میدان سے باہر تمام کرکٹرز آئی سی سی فیملی کا حصہ ہیں۔میچ کے دوران آنکھیں دکھانا،چیخنا چلانا، باتیں کرنا حربوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں،جیت کیلیے تو ایک ایک رن پر لڑائی ہوتی ہے لیکن بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ سمیت سب ٹیمیںہی آئی سی سی فیملی کا حصہ ہیں،پیار، محبت اور احترام کا رشتہ ہونا چاہیے،میدان سے باہر گپ، شپ اور دوستی بھی ہونی چاہئے۔ویرات کوہلی جتنے بڑے کرکٹر ہیں اتنے ہی بڑے انسان بھی ہیں۔ سابق بھارتی کپتان دھونی بھی اچھے انسان ہیں ۔
سوال:کس کھلاڑی کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے زیادہ مزا آتا ہے؟
محمد رضوان:بابر اعظم کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے سب سے زیادہ مزا آتا ہے۔بیٹنگ شراکت کے دوران مجھے یا بابر اعظم کو کوئی بات سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی،ہم دونوں ایک دوسرے پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔حریف بولرز کی صلاحیتوں اور کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے آپس میں پلاننگ بھی کرتے ہیں۔
سوال: سب سے پہلے تو آپ ہمارے قارئین کو اپنے خاندانی پس منظراور کچھ اپنے بارے میں بتائیں؟
محمد رضوان:میرے آباﺅ اجداد کا تعلق فاٹا (فیڈرل ایڈمنسٹریٹر ایئریاز) کے خوبصورت گاﺅں جناح کوٹ سے ہے۔ ہمارا قبیلہ آفریدی ہے۔ میرے دادا کا نام خان فیروز خان جبکہ والد محترم کا نام اختر پرویز ہے۔ پہلے ہماری رہائش پشاور شہر کے معروف علاقے رمدار بازار بیر سکو کے محلہ سنوبر خان مسلم آباد نمبر 3 میں تھی۔ میرے دادا خان فیروز خان صاحب پولیس ہسپتال پشاور میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ جبکہ میرے والد محترم اختر پرویز صاحب پولیس ہسپتال پشاور میں بطور سٹور کیپر کام کررہے ہیں۔ میرے چچا محمد نوروز خان بھی پولیس ہسپتال پشاور میں ملازمت کرتے ہیں۔ میں یکم جون 1992 کو پشاور میں پیدا ہوا۔ تین بھائی اور تین بہنوں میں میرا نمبر تیسرا ہے۔ مجھے گھر والے پیار سے ”زی“ کی عرفیت سے پکارتے ہیں۔ میں نے نیو کیمبرج پبلک سکول سے نرسری کلاس سے لے کر 8ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ شروع میں پڑھائی میں بہت ہی اچھا تھا۔ میں 8ویں جماعت تک فرسٹ اور سیکنڈ پوزیشن حاصل کرتا رہا ہوں۔ 9ویں کلاس کا امتحان کوہاٹ اڈا کے قریب واقع خلیل مہمند سکول سے پاس کیا۔ اس کے بعد پاکستان پبلک سکول میں داخلہ لے لیا اور 10ویں کلاس کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ اسلامیہ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی پشاور میں ایڈمشن لے لیا لیکن کرکٹ کی بڑھتی ہوئی مصروفیات کی وجہ سے گریجویشن نہ کر سکا۔ نومبر 2013 میں لوارینج میرج کی۔ اب میں بڑی خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہا ہوں۔
سوال: آپ کرکٹ کی جانب کیسے آئے؟
محمد رضوان: کرکٹ کھیلنے کا شوق تو بچپن ہی سے ہے۔ محلے کی ناہموار گلیوں سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ ان دنوں کرکٹ کا بیٹ میرے قد سے بڑا ہوا کرتا تھا۔6برس کی عمر میں کرکٹ کا بیٹ تھام لیا تھا۔ پلاسٹک کی گیند سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا تھا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو ٹینس بال سے کھیلنا شروع کر دیا جب کرکٹ کے کھیل کی سمجھ بوجھ آئی تو اپنے محلے کی ٹیم شہباز الیون کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ ہماری ٹیم کے تمام لڑکے رنگین کٹ میں ملبوس ہوتے تھے۔ ہم مختلف ٹیموں کے ساتھ ٹیپ بال کے میچز کھیلتے تھے۔ میں اس ٹیم کے ساتھ 12ویں پلیئر کے طور پر منسلک تھا۔ میرا کام ٹیم کا سامان سائیکل پر رکھ کر گراﺅنڈ تک لے جانا اور پھر میچ کے دوران اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو پانی پلایا کرتاتھا۔ مجھے اس ٹیم کی طرف سے صرف تین میچ ہی کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ میں نے اپنے دادا سے ملنے والی جیب خرچی جمع کر کے اپنے لئے رنگین کٹ خریدی تھی۔ ان دنوں مجھے ایڈم گلگرسٹ کی وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ بے حد پسند تھی۔ میں اپنے سکول کے دوستوں کے ساتھ بریک ٹائم کے دوران ہونے والے میچ میں وکٹ کیپنگ کیا کرتا تھا۔
سوال: مڈل کلاس یا لوئیر مڈل کلاس میں کھیل کود سے زیادہ پڑھائی لکھائی کو اہمیت دی جاتی ہے جب آپ نے کرکٹ کھیلنا شروع کی تو گھر والوں کا کیا ردِعمل تھا؟
محمد رضوان: میرے والد محترم چونکہ پولیس ہسپتال میں ملازمت کرتے ہیں لہٰذا ان کی بڑی شدید خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر پولیس آفیسر یا ڈاکٹر بنوں۔ لیکن مجھے صرف اور صرف کرکٹر بننے کا شوق تھا جبکہ میرے والد کو کرکٹ کا کھیل سخت نا پسند تھا۔ میں اکثر سکول سے بھاگ کر کرکٹ کھیلتا تھا۔ایک مرتبہ میں ٹیپ بال کے میچ میں وکٹوں کے قریب کھڑا ہو کر کیپنگ کر رہا تھا کہ اچانک بیٹسمین کا بیٹ میری آنکھ کے اوپر لگ گیا۔ آنکھ تو بچ گئی لیکن ابرو سے خون نکلنا شروع ہو گیا۔ جب گھر واپس آیا تو ابو سے خوب ڈانٹ پڑی اس کے بعد ابو نے میرے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی۔ سکول واپس آنے کے بعد میرا گھر سے نکلنا بند تھا۔پھر میں نے ایک ترکیب آزمائی میں چھت پر جا کر اپنے ہمسائیوں کی چھت پر کود جاتا تھا اور ان کے گھر سے باہر نکل کر کرکٹ کھیلنے چلا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ میرے ابو نے مجھے گھر کا سامان لانے کیلئے بازار بھیجا تو میں لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگ گیا جب دیر سے گھر پہنچا تو ابو سے خوب ڈانٹ پڑی۔ میرے ابو نے میرا کٹ، بیگ، جس میں کرکٹ کا سامان موجود تھا تو گھر کی چھت پر لے جا کر آگ لگا دی۔میں نے یہ منظر دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور دو دن تک کسی سے بات نہیں کی اور کھانا بھی نہیں کھایا۔ پھر دادا نے کچھ پیسے دیئے تو میں نے بازار سے اپنے لیے نئی کٹ خریدی۔
سوال: آپ کو گھر والوں نے سپورٹ کرنا کب شروع کیاتھا؟
محمد رضوان: جب میں پہلی مرتبہ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوا تو لوگوں نے میرے کھیل کی بڑی تعریف کی۔ اس کے بعد والدین نے کرکٹ کھیلنے سے منع نہیں کیا اور کرکٹ کے کھیل کو بطور پروفیشن بنانے کی
اجازت دے دی۔
سوال: ٹینس اور ٹیپ بال سے ہارڈ بال کی طرف کب اور کیسے آئے؟
محمد رضوان: مئی 2005 کو میں نے صدر کرکٹ اکیڈمی کو جوائن کیا تھا۔ دو ماہ کرکٹ پریکٹس کرنے کے بعد میں بیمار ہو گیا جس وجہ سے کرکٹ کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد پھر 2006 میں دوبارہ صدر کرکٹ اکیڈمی کو جوائن کیا۔ میں نے ہارڈ بال سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز بطور ون ڈاﺅن بیٹسمین کی حیثیت سے کیا تھا۔ ایک دن فیلڈنگ پریکٹس کے دوران ہماری اکیڈمی کا وکٹ کیپر غیر حاضر تھا تو کوچ نے سب لڑکوں سے پوچھا کہ کیا کسی لڑکے کو وکٹ کیپنگ آتی ہے تو میں نے کہاکہ سر میں ٹیپ بال کے میچوں میں وکٹ کیپنگ کیا کرتا تھا۔ تو اس کے بعد ہمارے کوچ نے وکٹ کیپنگ گلوز مجھے تھما دیئے۔ فیلڈنگ پریکٹس شیشن کے اختتام پر کوچ نے کہا کہ بیٹا تم میں ٹیلنٹ ہے اگر تم تھوڑی سی محنت کرو تو اچھے وکٹ کیپر بن سکتے ہو۔ اس کے بعد سے میں نے وکٹ کیپنگ گلوز سنبھال لئے اور سخت محنت کرنا شروع کر دی۔ 2007 میں صدر کرکٹ اکیڈمی کو خیر باد کہہ کر شمع کرکٹ کلب کو جوائن کر لیا۔ جہاں پر حنیف شاہ صاحب کے مفید مشوروں پر عمل کرتے ہوئے کھیل میں بہتری پیدا کی۔
سوال: ابتداءمیں آپ کوکرکٹ کا سامان کس نے خرید کر دیا تھا؟
محمد رضوان: ہمارا گھرانہ کافی مذہبی ہے۔ میرا بڑا بھائی عالم دین ہے۔ اس لیے ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔ میرے دادا جی کو کرکٹ میچز دیکھنے کا شوق تھا اور پھر مجھے بھی کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ میرے اصرار پر میرے دادا ٹی وی خرید کر گھر لے آئے۔ پاکستان یا آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے میچز اپنے دادا کے ساتھ ٹی وی پر دیکھتا تھا۔ میں نے ایک دن وہ ٹی وی 3200روپے میں بازار جا کر فروخت کر دیا اور وہ رقم اپنے صدر کرکٹ اکیڈمی کے کوچ پرویز صاحب کو دے دی توانہوں نے اس رقم سے مجھے کرکٹ کا سامان خرید کر دیا۔ چند دن کے بعد جب پاکستان کرکٹ ٹیم کا میچ تھا تو دادا نے ٹی وی پر میچ دیکھنے کیلئے ٹی وی کا ڈبہ دیکھا تو وہ خالی تھا۔ جب ان کو پتہ چلا کہ میں نے ٹی وی فروخت کر کے کرکٹ کا سامان خرید لیا ہے تو وہ کافی ناراض ہوئے لیکن جلد ہی ان کا موڈ خوشگوار ہو گیا۔
سوال: کرکٹ کو پروفیشن بنانے کے بعد کس کھلاڑی کو آئیڈیل بنا کر محنت شروع کی؟
محمد رضوان: کرکٹ کے کھیل میں مجھے شروع دن سے ہی ایڈم گلگرسٹ کی وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ پسند تھی۔ ان کے علاوہ مجھے راشد لطیف کی وکٹ کیپنگ بھی پسند تھی۔ یہی میرے آئیڈیل وکٹ کیپرز ہیں۔
سوال: آپ کا کیریئر کس طرح آگے بڑھا؟
محمد رضوان: کلب کرکٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے صلے میں مجھے پشاور کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ میں نے 2007 میں انٹرڈسٹرکٹ انڈر 19کرکٹ چمپئن شپ میں پشاور کی نمائندگی کی۔ اس سے قبل میں نے فاٹا کی طرف سے ٹرائلز دیئے تھے لیکن مجھے سلیکٹ نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے انٹر ڈسٹرکٹ انڈر 19 کرکٹ چمپئن شپ میں نوشہرہ کے خلاف ڈیبیو کیا اور صرف 13رنز ہی بنا سکا۔ اگلہ معرکہ چارسدہ کے خلاف تھا میں نے شاندار سنچری اسکور کی 112 رنز بنا کر اپنی سلیکشن کو درست ثابت کر دیا۔ پھر سوات کے خلاف میچ میں 97رنز بنائے۔ اسی برس پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کے لیے ٹرائلز ہوئے تو میں نے بھی ٹرائلز دیئے اور عمدہ پرفارم کر کے پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوا۔ جونیئر قومی ٹیم نے بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کھیلنی تھی۔ میرے علاوہ قومی انڈر 19 ٹیم میں احمد شہزاد، عمر اکمل، شرجیل خان، شاہ زیب حسن، عثمان صلاح الدین، حماد اعظم، عمر امین، عمیر اور علی اسد شامل تھے۔ منصور رانا صاحب ٹیم کے کوچ تھے۔ میں مڈل آرڈر بیٹسمین کی حیثیت کے کھیلا تھا۔ علی اسد وکٹ کیپر تھا۔ میں بنگلہ دیش انڈر 19 ٹیم کے خلاف تیسرا اور پانچواں میچ کھیلا تھا۔ اس کے بعد میں نے پشاور ریجن کی طرف سے ایبٹ آباد کے خلاف اپنا اولین فرسٹ کلاس میچ کھیلا، پہلی اننگ میں ہماری پوری ٹیم 56پر آﺅٹ ہو گئی تھی میں صرف 2رنز ہی بنا سکا تھا دوسر اننگ میں عمدہ پرفارم کیا تھا 60رنز بنانے کے علاوہ وکٹوں کے عقب میں 6کیچ بھی پکڑے تھے۔ ہماری ٹیم کے کوچ سجاد اکبر صاحب تھے انہوں نے مجھے بھرپور سپورٹ کیا تھا۔ میں نے اپنے پہلے فرسٹ کلاس سیزن میں 7نصف سنچریاں اسکور کیں تھیں۔ 6مرتبہ ناٹ آﺅٹ رہا تھا میری ایوریج 55رنز کی تھی۔
سوال: آپ نے پہلا ڈیپارٹمنٹ کون سا جوائن کیا تھا؟
محمد رضوان: میرا پہلا ادارہ پپکو (واپڈا) تھا۔ مجھے تیسرا گریڈ ملا تھا۔ میری تنخواہ 11ہزار روپے لگی تھی واپڈا کو 2009 میں جوائن کیا تھا۔
سوال: آپ نے سوئی ناردن گیس پائپ لائن کی کرکٹ ٹیم کو کب جوائن کیا تھا؟
محمد رضوان: پشاور ریجن اور سوئی ناردن گیس کی ٹیموں کے مابین میچ کھیلا جا رہا تھا میں اس میچ میں پشاور ریجن کی ٹیم کا 12 کھلاڑی تھا۔ ریاض آفریدی کی فیلڈنگ کے دوران انگلی ٹوٹ گئی ان کی جگہ مجھے فیلڈنگ کیلئے میدان میں جانا پڑا۔ میں نے سلپ میں فیلڈنگ کرتے ہوئے 2 مشکل کیچ پکڑے تھے۔ باسط علی نے میری فیلڈنگ کی بڑی تعریف کی تھی۔ اس کے بعد سوئی ناردن گیس اور پشاور ریجن کی ٹیموں کے مابین قائداعظم ٹرافی کا فائنل میچ ہوا۔ میں نے 46 رنز کی اننگ کھیلی اور وکٹوں کے عقب میں 8 کیچ بھی پکڑے تھے۔ پشاور ریجن کی ٹیم بہت عرصے کے بعد قائداعظم ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس میچ کے بعد ہماری ٹیم کے فزیکل ٹرینر ابرار کو سوئی گیس کی ٹیم کے منیجر خالد صاحب نے کہا تھا کہ ہم رضوان کو اپنی طرف سے کھلانا چاہتے ہیں۔ ابرار بھائی نے مجھے اس بارے میں بتایا کچھ ہی دیرمیں خالد صاحب کا مجھے فون آگیا اور انہوں نے مجھے سوئی گیس کی طرف سے کھیلنے کی آفر کی لیکن میں نے فوراً ہامی بھرنے کے بجائے ان سے چند دن کی مہلت مانگ لی۔ اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ میں واپڈا کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد جب اگلے برس ڈومیسٹک ون ڈے سیزن شروع ہوا تو میں نے ڈومیسٹک ون ڈے میچ میں سوئی گیس کے خلاف 69 رنز کی اننگ کھیلی۔ تو میچ کے بعد سوئی گیس کے ٹیم کے منیجر خالد صاحب نے مجھے دوبارہ سوئی گیس کی طرف سے کھیلنے کی آفر کی۔ تو میں نے اپنے بہترین دوست اسلم قریشی جو حبیب بینک کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے ہیں سے مشاورت کی۔ سوئی گیس سے قبل مجھے اسٹیٹ بینک کی طرف سے کھیلنے کی آفر بھی ہوچکی تھی لیکن اسلم قریشی بھائی نے مجھے منع کر دیا تھا۔ جب میں نے اسلم بھائی کو بتایا کہ مجھے سوئی گیس کی طرف سے کھیلنے کی آفرہوئی ہے تو انہوں نے مجھے فوراً جوائن کرنے کا مشورہ دیا۔ یوں میں نے سوئی گیس کی کرکٹ کو جوائن کر لیا۔
سوال: سوئی گیس کی ٹیم کو جوائن کرنے سے آپ کے کھیل میں کیا بہتری آئی؟
محمد رضوان: سوئی گیس کو جوائن کیا تو مجھے باسط علی جیسے مخلص ترین شخص کی کوچنگ میں کرکٹ کے بارے میں وہ باتیں سیکھنے کا موقع ملا جو میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ باسط بھائی، مصباح الحق بھائی، حفیظ بھائی، توفیق عمر بھائی، اظہر علی بھائی، عدنان اکمل بھائی اور عمر اکمل بھائی نے میری مکمل سپورٹ کی اور مجھے بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ میں مزید نکھار پیدا کرنے کے حوالے سے مفید مشورے دیئے۔ جن پر عمل کرنے سے میرے کھیل میں نکھار پیدا ہوا۔ سوئی گیس کی طرف سے مجھے واپڈا کے خلاف میچ کھلایا گیا تھا میں نے 69 رنز کی اننگ کھیلی تھی۔ اس کے بعد نیشنل بینک کے خلاف 93 رنز اور اسٹیٹ بینک کے خلاف شاندار سنچری اسکور کی تھی۔ مجھے سوئی گیس کی طرف سے جب بھی میدان میں اترنے کا موقع ملا تو میں نے عمدہ پرفارم کیا۔
سوال: کیا آپ کو پاکستان کی اے ٹیم کی نمائندگی کا بھی موقع ملا؟
محمد رضوان: 2010میں متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کھیلی گئی تھی۔ پاکستان اے ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف پریکٹس میچ کھیلا تھا۔ میں پاکستان کی اے ٹیم کی طرف سے بطور وکٹ کیپر بیٹسمین کھیلا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی انڈر 23 ایمر جنگ کرکٹ ٹیم میں شامل ہوا اور سنگا پور میں ٹورنامنٹ کھیلا۔ 2013 میں سنگاپور میں ہم لوگ انڈیا سے انڈر 23 ایمرجنگ ٹرافی کا فائنل ہار گئے تھے۔
سوال: آپ کے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ کون سا تھا؟
محمد رضوان: جب میں نے سوئی گیس کی ٹیم کو جوائن کیا اور پھر ملنے والے مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا یا عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے کا موقع ضرور ملے گا۔
سوال: پہلی مرتبہ پاکستان ٹیم میں نام آیا تو کیا احساسات تھے؟
محمد رضوان: 2012 میں جنوبی افریقہ کے ٹور کیلئے قومی ٹیم کا اعلان ہوا تو میرا نام ریزور پلیئرز میں شامل تھا۔ میں اس وقت ملتان میں پشاور ریجن کی طرف سے میچ کھیل رہا تھا۔ مغرب کا وقت تھا کہ مجھے ٹیم کے فزیکل ٹرینر ابرار بھائی نے بتایا کہ آپ کا نام جنوبی افریقہ کے ٹور پر جانے والی پاکستان ٹیم کے ریزور پلیئرز میں شامل ہے تو میں بہت زیادہ خوش تھا۔ میں نے گھر فون کر کے اطلاع دی تھی اس کے بعد 2013 میں مجھے میرے کزن نے ٹیلی فون کر کے اطلاع دی کہ رضوان بھائی آپ کا نام ویسٹ انڈیز کے ٹور پر جانے والی پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا ہے۔ تو میں بہت زیادہ خوش تھا۔ اس وقت جو میرے احساسات اور جذبات تھے وہ بیان سے باہر ہیں
میںنے اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے نوافل ادا کئے تھے۔
سوال: 2015 جب بنگلہ دیش کے ٹور پر جانے والی پاکستان کی ون ڈے اور ٹونٹی 20 کرکٹ ٹیم میں نام آیا ہے تو
آپ کے کیا احساسات تھے؟
محمد رضوان: بہت خوش تھا ، میں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں جو شاندار کارکردگی دکھائی اس کا مجھے صلہ بنگلہ دیش کے ٹور پر قومی ٹیم میں شمولیت کی صورت میں ملا تھا۔
سوال: آپ نے اپنے لیے کن منزلوں کا تعین کیا ہوا ہے؟
محمد رضوان: میں ٹیسٹ کرکٹ، ون ڈے کرکٹ اور ٹی 20کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کا نمبر ون وکٹ کیپربیٹسمین بننا میرا اولین ہدف ہے۔
سوال: وکٹ کیپنگ ایک مشکل کام ہے جسے بڑی باریک بینی کے ساتھ نگاہ میں رکھا جاتا ہے اور ذرا سی خراب کارکردگی کسی بھی کھلاڑی کو عرش سے فرش پر لا کر پھینک سکتی ہے اچھے کھیل پر داد کم اور خراب پر تنقید کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے یہ بات جانتے ہوئے بھی آپ نے وکٹ کیپر بننے کو ہی ترجیح دی؟
محمد رضوان: میری خواہش یہی رہی ہے کہ کھیل سے زیادہ سے زیادہ منسلک رہوں اور حقیقت صرف یہ ہے کہ وکٹ کیپر کے طور پر ہی آپ ہمہ وقت کھیل کے ساتھ منسلک رہ سکتے ہیں کیونکہ گیند ہر بار آپ کی طرف آتی ہے۔ وکٹ کیپر کا گیند کےساتھ مسلسل رابطہ رہتا ہے میں اگر کرکٹ کے کھیل سے منسلک نہ رہوں تو بہت ہی بور ہو جاتا ہوں، لہٰذا میں نے وکٹ کیپنگ کو ترجیح دی جو کہ ایک دلچسپ کام ہے لیکن بہت ہی مشکل جاب ہے جس میں اچھے کھیل پر داد کم اور خراب پر تنقید کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ سارا دن بہت اچھی وکٹ کیپنگ کرتے رہیں اور دن کے آخری اوورز میں ایک کیچ گرا دیں تو سارے دن کی محنت پر ایک لمحے میں پانی پھیر دیا جاتا ہے اور تمام چیزیں الٹی ہو جاتی ہیں اگر کوئی فیلڈر کیچ گرادے تو اس پر اتنی زیادہ تنقید نہیں ہوتی مگر یہی غلطی اگر کسی وکٹ کیپر سے سرزد ہو جائے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے ہاتھوں پر دستانے ہوتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ اسے ہر گیند کو لازمی طور پر کیچ کرنا ہے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں نے اس شعبے کو اس وجہ سے جوائن کیا کیونکہ میں شروع دن سے ہی سخت چیلنجز قبول کرنے والا نوجوان ہوں۔ وکٹ کیپر ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جسے پوری ذمہ داری اور توجہ کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دینا پڑتے ہیں۔ اس کی معمولی سی غفلت لوگوں کی نظروں میں آ جاتی ہے اور میچ پر یہ غلطی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ صبح سے لے کر شام تک ہر گیند کو یکساں مہارت کے ساتھ پکڑنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ مگر معمولی سی کوتاہی بھی مصیبت بن جاتی ہے۔ وکٹ کیپنگ ایک بے صلہ کام ہے آپ پورے دن اچھی وکٹ کیپنگ کریں اور دو تین اچھے کیچ پکڑیں مگر دن کے خاتمے پر آپ کے ہاتھ سے کیچ گر جائے تو لوگ وہ کیچز بھول جاتے ہیں جو کہ دن بھر میں آپ نے پکڑے ہوتے ہیں۔ ہر ایک یہی کہتا ہے کہ اس نے آسان کیچ گرا دیا۔ وکٹ کیپر کے لیے معمولی سی غلطی بھی بہت بڑی سمجھی جاتی ہے حالانکہ فیلڈر خراب فیلڈنگ کرے تو وکٹ کیپر کیلئے حالات بڑے کٹھن ہوتے ہیں لہٰذا آپ کو گیند کو پرکھنے کیلئے حد سے زیادہ اچھا ہونا پڑتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں مگر آپ وقت سے پہلے ہی گیند کو پرکھ لیں تو یہ بات اور زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ اور یہ حقیقت بھی بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ وکٹ کیپنگ واقعی ایک بہت ہی مشکل اور اہم ترین ذمہ داری کا کام ہے۔
سوال: ایک وکٹ کیپر ہونا سخت اور مشکل گزار کیوں ہے؟
محمد رضوان: وکٹ کیپنگ سخت، مشکل اور تھینک لیس جاب اس لیے ہے کہ آپ ایک گیند پر بھی آرام نہیں کر سکتے ہیں فرسٹ کلاس کا چار روزہ میچ ہو یا پھر ٹیسٹ میچ میں وکٹ کیپر کو ہر حال میں90اوورز تک اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے اور تقریباً آپ کو 540مرتبہ اٹھک بیٹھک کرنا پڑتی ہے اور پھر یہ کام اس وقت مزید مشکل ہو جاتا ہے جب آپ کو مختلف قسم کے باﺅلرز پر وکٹ کیپنگ کرنا پڑتی ہے دن بھر آپ سخت محنت کر کے چار کیچ کر لیں اور شام کو آخری اوور میں صرف ایک کیچ غلطی سے گر جائے تو یہ گرا ہوا کیچ ساری کارکردگی پر پانی پھیر دیتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے مقابلے میں ون ڈے اور ٹونٹی 20کرکٹ میں تو وکٹوں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلسل بھاگنا پڑتا ہے اور یہ چیز بڑی مشکل ہوتی ہے۔ وکٹ کیپر ایک پل کیلئے بھی ریلیکس نہیں ہو سکتا۔
سوال: کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ کسی وکٹ کیپر کو وکٹ کیپنگ کے علاوہ بیٹنگ کے شعبے میں بھی مہارت کا حامل ہونا چاہیے؟
محمد رضوان: میں سمجھتا ہوں کہ وکٹ کیپر کیلئے ایک اچھا بیٹسمین ہونا بہت ہی زیادہ مدد گار ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ٹیم کو دوہرا فائدہ ہوتا ہے آج کل کی کرکٹ میں تو وکٹ کیپر کو بیٹنگ میں بھی حصہ بننا پڑتا ہے کیونکہ اس سے ٹیم کے توازن کو بہتر کرنے میں مدد مل جاتی ہے۔ میں دونوں شعبوں میں نکھار لانے کیلئے سخت محنت کر رہا ہوں بیٹنگ اور کیپنگ کو پوری یکسوئی کے ساتھ وقت دے کر مسلسل محنت کر رہا ہوں میری بیٹنگ اور کیپنگ میں پہلے کی نسبت بہت بہتری آئی ہے میں دونوں شعبوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا متمنی ہوں۔
سوال: آپ کے نزدیک اولین ترجیح کسے حاصل ہے وکٹ کیپنگ کو یا پھر بیٹنگ؟
محمد رضوان: میں دونوں کو ہی برابری کی سطح پر ٹائم دیتا ہوں ویسے وکٹ کیپنگ ہی میری اولین ترجیح ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وکٹ کیپنگ ہی میرا اصل کام ہے میں ٹریننگ کے دوران وکٹ کیپنگ پر ہی توجہ دیتا ہوں لیکن بیٹنگ کے لیے بھی ضرور وقت نکالتا ہوں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اچھی بیٹنگ وکٹ کیپر کیلئے قیمتی اثاثہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ وکٹ کیپر جتنے بھی رنز بنائے گا اس کا فائدہ اس کی ٹیم کو ہی ہو گا۔
سوال: ماضی میں وکٹ کیپر کی اصل اہمیت اس کی وکٹ کیپنگ ہی ہوتی تھی مگر موجودہ دور کی ماڈرن کرکٹ کا تقاضہ ہے کہ وکٹ کیپر بیٹنگ میں بھی مہارت رکھتا ہو آپ کے خیال میں بیٹنگ پر توجہ کے سبب کیا وکٹ کیپنگ متاثر ہوتی ہے؟
محمد رضوان: وکٹ کیپر کیلئے اچھا بلے باز ہونا بہت زیادہ مدد گار ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ٹیم کو دوہرا فائدہ ہوتا ہے آج کل وکٹ کیپر کو بیٹنگ کا بھی حصہ بننا پڑتا ہے کیونکہ اس سے ٹیم کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے پہلے آپ کسی اچھے وکٹ کیپر کے طور پر کسی کیلئے برسوں کھیل سکتے ہیں خواہ آپ رنز کر رہے ہوں یا نہیں مگر آج کل یہ رواج ہے کہ آپ کے بنائے ہوئے رنز بھی کاﺅنٹ ہوتے ہیں اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں اپنی بیٹنگ پر بھی مسلسل محنت کر رہا ہوں وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ کرنے اور پورا دن گراﺅنڈ میں گزارنے سے میں قطعاً نہیں گھبراتا اور نہ ہی تھکاوٹ ہوتی ہے میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ سارا دن ایکشن میں رہوں فٹنس برقرار رکھنے کیلئے دوسروں سے زیادہ محنت اور ایکسرسائز کرتا ہوں تاکہ ان سے بہتر کارکردگی بھی دکھا سکوں۔ وکٹ کیپنگ مشکل شعبہ ضرور ہے لیکن میں نے اس کو جنون بنا لیا ہے جس کے سبب کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
سوال: یہ بتائیے کہ باﺅلنگ، بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ میں سے زیادہ مشکل شعبہ کون سا ہے؟
محمد رضوان: بلاشبہ وکٹ کیپنگ کا شعبہ سب سے مشکل ترین ہے کیونکہ وکٹ کیپر ایک پل کیلئے بھی ریلیکس نہیں ہو سکتا اسے دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ ایکٹو رہنا پڑتا ہے چار روزہ میچ یا ٹیسٹ میچ میں تو پورا دن یعنی 90اوورز وکٹوں کے عقب میں اٹھنا بیٹھنا پڑتا ہے اور ذرا سی توجہ ہٹنے سے کیچ ڈراپ یا اسٹمپ مس ہو سکتا ہے۔
سوال: مختلف وکٹوں پر آپ خود و کس طرح ایڈجسٹ کرتے ہیں؟
محمد رضوان: تیز وکٹوں پر تھوڑا پیچھے کھڑا ہونا پڑتا ہے پھر باﺅلرز پر بھی اس کا بہت زیادہ انحصار ہوتا ہے۔ اگر اچھال کم ہو تو اوپر چڑھناپڑتا ہے۔ تاہم وکٹ کیپر کی گیند کی پرکھ پر منحصر ہے کہ وہ خود کو کہاں بہتر محسوس کرتا ہے۔
سوال: جس وقت آپ کیچز کیلئے چھلانگ لگاتے ہیں تو کیا اس وقت وکٹ کیپنگ ایک معمہ نظر نہیں آتی ہے؟
محمد رضوان: آپ کسی چیز کو یقینی دیکھ کر ہی ڈائیو لگاتے ہیں میرا خیال ہے کہ جب آپ چھلانگ لگا رہے ہوں تو آپ کو 100 فیصد اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ آپ یہ کیچ پکڑ لیں گے اگر آپ ادھوری کوشش کریں گے تو اس طرح سلپ کے فیلڈرز بھی دھوکے میں رہ جائیں گے اور کیچ گر جائے گا لہٰذا چھلانگ لگاتے وقت آپ کو کیچ قابو کر لینے کا یقین ہونا چاہیے۔
سوال: وکٹوں کے عقب میں آپ کی موومنٹ بڑی قدرتی سی محسوس ہوتی ہے کیا اس کی وجہ وہ پیش بینی کی صلاحیت ہے جس کے سبب باﺅلرز کے ہاتھ سے گیند نکلتے ہی آپ اسے سمجھ لیتے ہیں؟
محمد رضوان: یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ کم و بیش تمام وکٹ کیپرز میں موجود ہوتی ہے گیند کی لائن اور لینتھ کو سمجھنے کی صلاحیت اور پھر گیند کی خط پرواز کو اس وقت جانچنا جب وہ پچ پر گرنے کے بعد آگے بڑھ رہی ہو انتہائی مشکل اور ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی صلاحیت کے سہارے آپ گیند کو صفائی کے ساتھ پکڑنے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ اس کے لیے بڑی سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے نیٹ پریکٹس پر مختلف سمتوں میں جانے والی گینددوں کو پکڑنا آپ کو اس کا عادی بنا دیتا ہے کہ آپ کسی بھی گیند تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم یہ چیز ہے کہ آپ کو اپنے اوپر مکمل اعتماد اور پورا یقین ہو۔ آپ یہ جانتے ہوں کہ ایک مرتبہ ذہنی طور طور پر تیاری کے بعد آپ کوئی بھی کام کر گزریں گے۔ وکٹ کیپنگ کے دوران گیند پر مسلسل توجہ رکھنا پڑتی ہے بجائے اس کے آپ بیٹسمین کو نگاہ میں رکھیں۔ یہی وہ چند باتیں ہیں جن پر عمل کر کے آپ مستعدی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
سوال: ایک وکٹ کیپر کس طرح اپنی ٹیم کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟
محمد رضوان: ایک وکٹ کیپر دوسرے کھلاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ قریب سے کھیل کا معائنہ کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اس کی پوزیشن ہی ایسی ہوتی ہے وہ کسی اور کے مقابلے میں کھیل کی باریکیوں کو زیادہ بہتر طور پر دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس کی ہدایات یا مشورہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وکٹ کیپنگ کا مطلب محض گیند کو پکڑنا نہیں ہے بلکہ آپ کو صحیح معنوں میں دوسروں کو کھیل سے منسلک رکھنا پڑتا ہے اور ایک وکٹ کیپر کسی بھی ٹیم کو ایک لڑی میں پرو سکتا ہے چونکہ وہ دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ قریب سے کھیل کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے لہٰذا یہ آپ کے لیے اضافی اہلیت کا حامل ہوتا ہے یہ اپنے کپتان اور ساتھی باﺅلرز کو بیٹسمین کی کمزوریوں کے بارے میں آگاہ کر سکتا ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں کیا چیز مشکل ہے، اسپنرز کے خلاف وکٹ کیپنگ کرنا یا پھر فاسٹ باﺅلرز پر؟
محمد رضوان: میرے خیال میں تو اسپنرز کے خلاف وکٹ کیپنگ کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ آپ بہت ہی قریب کھڑے ہوتے ہیں۔ اسٹمپس کے قریب کھڑے ہو کر گیند کو قابو کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسپنرز کے خلاف کیپنگ کر کے آپ کی صلاحیتوں کا صحیح امتحان ہوتا ہے۔ وکٹ کیپرز پیدائشی ہوتے ہیں وہی تا دیر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں اور جن کو زبردستی بنایا جاتا ہے وہ جلد دھندلا جاتے ہیں۔
سوال: ایک عام تاثر یہ ہے کہ اسپیشلسٹ وکٹ کیپرز کی افزائش کا عمل رک گیا ہے آپ کیا کہتے ہیں؟
محمد رضوان: کسی حد تک یہ بات درست ہے کیونکہ اب ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اب آل راﺅنڈرز کے چکر نے کئی باصلاحیت وکٹ کیپرز کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ماضی کی طرح اب وکٹ کیپرز دیر تک بننے اور سنورنے کے عمل سے نہیں گزرتے اور قومی ٹیموں تک رسائی بہت ہی آسان ہو گئی ہے حالانکہ کسی کی بھی اہلیت اور ٹیمپرامنٹ کو جانچنے کے لےے ایک اچھا وقت درکار ہوتا ہے اور سارا زور کارکردگی کے تسلسل پر دینا چاہیے۔اگر کوئی بیٹنگ کرے تو اسے محض بونس سمجھنا چاہیے کیونکہ کیپر کا اصل کام تو وکٹوں کے پیچھے حفاظت کرنا ہے۔
سوال: اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وکٹ کیپرز بہت زیادہ تنقید کا شکار ہوتے ہیں جب آپ پر تنقید ہوتی ہے تو کیسے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں؟
محمد رضوان: ان حالات میں خود کو ٹھنڈا رکھتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بحیثیت وکٹ کیپر آپ کو 100 فیصد کارکردگی دکھانا ہوتی ہے میں سختی کے ساتھ کھیل پر توجہ مرکوزرکھتا ہوں تاکہ تنقید کرنے والوں کو غلط ثابت کر سکوں۔
سوال: کیا ذہنی مضبوطی سب سے اہم چیز ہے؟
محمد رضوان: جی ہاں…. اس مقام پر آکر تو سارا کام ہی ذہنی مضبوطی کا ہوتا ہے۔ آپ کو حد سے زیادہ مضبوط ہونا پڑتا ہے کیونکہ کتنے لوگ آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جس سے بہت زیادہ دباﺅ ہوتا ہے۔ وکٹ کے عقب میں کھڑے ہو کر اپنے اعصاب پر قابو پانا ضروری ہوتا ہے کسی غلطی کے آپ متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہر لمحہ یہ بات ذہن میں رہتی ہے کہ ہم ملک کے بہترین باﺅلرز پر کیپنگ کر رہے ہیں۔لوگوں کی امیدیں بہت زیادہ ہوتی ہیں لہٰذا ہر روز شام کو کھیل کے مختلف پہلوﺅں پر غور کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی مضبوطی ہی اچھی کارکردگی دکھانے کا اہم ترین راز ہے۔
سوال: کیا وجہ ہے کہ بہت ہی کم دیکھنے کو آتا ہے کہ کسی وکٹ کیپر کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا ہو؟
محمد رضوان: وکٹ کیپر کی حیثیت سے مین آف دی میچ کا حصول بہت ہی مشکل کام ہے اگر آپ نے غیر معمولی وکٹ کیپنگ کی ہو تو ممکن ہے لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ بال وکٹوں کے عقب میں آرہی ہو۔ کئی میچز میں تو ایسا ہوتا ہے کہ گیند بلے سے لگ کو وکٹوں کے پیچھے ہی نہیں آتی اور کبھی کبھار تو ایسا ہوتا ہے کہ ایک میچ میں کافی شکار ہو جاتے ہیں لیکن یہ پچ پر منحصر ہوتا ہے۔ وکٹ کیپرز کو بہت ہی کم مین آف دی میچ ملنے پر میں مایوس نہیں ہوں بلکہ اپنی محنت جاری رکھتا ہوں۔
سوال: وکٹ کیپر کی حیثیت سے آپ کو مسلسل باﺅلرز کی حوصلہ افزائی کرنا پڑتی ہے بعض اوقات اس کیلئے آپ کو چیخنا بھی پڑتا ہے اور یہ سب کر کے آپ خود بھی تو بدزبانی اور فضول کلامی کے درمیان ایک لکیر پر چل رہے ہوتے ہیں؟
محمد رضوان: بحیثیت وکٹ کیپر میں اپنے باﺅلرز کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتا ہوں ان کے جذبے کو بلندکرتا ہوں۔ یہ میرے فرائض میں شامل ہے گیم کا ایک حصہ ہے مگر میں کوئی فحش بات نہیں کرتا۔ بعض اوقات جب کوئی بیٹسمین گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے تو میں باﺅلرز سے کہتا ہوں کہ تجربات نہ کرو بلکہ صرف اپنی لائن اور لینتھ پر باﺅلنگ کرو اور بیٹسمین خودبخود آﺅٹ ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو وکٹ کیپر اور باﺅلر کے درمیان آنکھیں رابطے کا کام کرتی ہیں جبکہ بعض مرتبہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اپنی توجہ کھو رہے ہیں۔اس وقت آپ باﺅلرز سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ بعد میں بات کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذہنی مضبوطی اور توجہ ہی کھیل کی بنیاد اور کامیابی کا راز ہے۔
سوال: بیٹنگ کے شعبے میں بھی کسی نے آپ کی مدد کی ہے؟
محمد رضوان: جب میں نے سنجیدگی سے کھیل میں قدم رکھا تو میرے اندر بہت سی چیزیں قدرتی طور پر موجود تھیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی اور مصباح الحق نے مجھے بڑی سخت مشق کروائی ہے ۔ فاسٹ اور اسپن باﺅلنگ کو یکساں مہارت کے ساتھ کھیلنے کے فن کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بالکل قدرتی انداز سے کھیلو۔ انہوں نے میرے اندر کھیل کی تحریک کو ایک نیا جذبہ دیا جس سے میرے اندر اعتماد پیدا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ میں دوران بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ اپنے نیچرل انداز کے ساتھ کھیل میں شریک ہوتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ اس بات پر کامل یقین رکھا ہے کہ کامیابیاں حاصل کرنے کوئی فینسی فارمولا نہیں ہے بلکہ آپ بیٹ اور بال کے ساتھ کھیلیں اور مدمقابل آنے والے ناموں پر قطعی کوئی توجہ نہ دیں۔ بس مثبت طریقے سے اپنا نیچرل کھیل کھیلیں۔
سوال: طویل دورانیے کی کرکٹ میں 2اننگز کے دوران توجہ کو قائم رکھنا کس حد تک مشکل ہوتا ہے؟
محمد رضوان: کسی بھی لیول کی کرکٹ ہو توجہ اور اعتماد ہی کامیابی دلاتے ہیں۔ میں ٹونٹی 50,20 اوورز کے علاوہ چار روزہ کرکٹ مقابلوں میں شرکت کرتا ہوں اور ہر طرح کی کرکٹ کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہوں۔ میں ذہنی طور پربہت مضبوط ہوں اور جسمانی طور پر بھی مکمل فٹ ہوں جو کہ مجھے کسی بھی طرح کی کرکٹ میں خود کو ایڈجسٹ کرنے میںمدد دیتی ہے۔ میں مثبت ذہن کے ساتھ محض اچھی کارکردگی دکھانے کا عزم لے کر میدان میں اترتا ہوں۔
سوال: فیلڈنگ کے شعبے میں آپ نے بہتری کس طر ح پیدا کی؟
محمد رضوان: جب میں نے سوئی ناردن گیس کرکٹ ٹیم کو جوائن کیا تھا۔ تو اُن دنوں عدنان اکمل پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ تھے اور عدنان بھائی سوئی ناردن گیس کی ٹیم کے ریگولر وکٹ کیپر بلے باز تھے۔ پہلے سال جب اے ڈی بھائی (عدنان اکمل) پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے تو مجھے وکٹ کیپنگ کرنے کا موقع ملتا رہا جبکہ اگلے سال ہم دونوں کھیلے تو میں نے کچھ میچز بطور بیٹسمین کھیلے کیونکہ باسط بھائی مجھے فیلڈنگ کی مشق بھی کرواتے تھے اور بیٹسمین کی حیثیت سے کھیلتے ہوئے میں نے سلپ میں کافی کیچز بھی پکڑے۔ مجھے باسط بھائی نے یہی سمجھایا تھا کہ ساتھ ساتھ اپنی فیلڈنگ پر بھی توجہ دیتے رہو تاکہ پپ مستقل طور پر سوئی ناردن گیس کیلئے کھیلتے رہو اور اب مجھے پاکستانی ٹیم میں بھی موقع ملا ہے جہاں میں ون ڈے میچز میں بطور بیٹسمین کھیلتا ہوں کیونکہ سرفراز بھائی کیپنگ کرتے ہیں اور میں بیٹنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ کر رہا ہوتا ہوں۔ میں نے سوچا ہوا تھا کہ میں فیلڈنگ کا ایسا بلند معیار سیٹ کروں جیسا کہ ریورس سوئنگ میں آج بھی لوگ وسیم بھائی اور وقار بھائی کو یاد کرتے ہیں۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ جب بھی پاکستان کی فیلڈنگ کے معیار کی بات ہو تو اس میں میرا نام بھی آئے۔
سوال: آپ نے اب تک ٹےسٹ، ون ڈے اور T20 کرکٹ میں جو رنز اسکور کئے ہیں وہ پریشر میں کئے ہیں، آپ نے پریشر میں کھیلنے کا فن کس طرح سیکھا ہے؟
محمد رضوان: میںہمیشہ اللہ سے دعا مانگ کر میدان میں جاتا ہوں اور اللہ کے بھروسے کھیلتے ہوئے کوشش کرتا ہوں کہ گراﺅنڈ میں 110 فیصد کارکردگی دکھاﺅں۔ میں اپنی بیٹنگ کے حوالے سے بہت زیادہ محنت اور سوچ بیچار کرتا ہوں اور اللہ پاک سے اچھی پرفارمنس کی دعا مانگ کر جاتا ہوں تو اللہ پاک پرفارم بھی کرا دیتا ہے۔ دیکھیں! ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے لیکن جب آپ کے نام کے ساتھ پاکستان لگ جاتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ میں بیس کروڑ لوگوں کا نمائندہ بن کر اس میدان میں کھیل رہا ہوں اس لیے مجھے اپنے ہم وطنوں کو مایوس نہیں کرنا۔ میں اس بات پر بہت زیادہ یقین رکھتا ہوں کہ اب تک میں نے جو پرفارمنس دکھائی ہے وہ عوام کی دعاﺅں کا نتیجہ ہے کیونکہ آپ کے گھر والے والدین، بیوی، بچے تو دعا کرتے ہیں لیکن عوام نے مجھے جتنی محبت دی ہے وہ بیان سے باہر ہے اور یہ ان کی محبتوں کا نتیجہ ہے کہ میں پاکستان کیلئے کھیلتے ہوئے پرفارمنس دکھا رہا ہوں۔
سوال: بنگلہ دیش کے خلاف ڈیبیو کرتے ہوئے کچھ پریشر تھا یا قومی ٹیم کے ساتھ رہنے کے باعث آپ بالکل نارمل محسوس کر رہے تھے؟
محمد رضوان: پاکستان کی شرٹ اور کیپ پہننا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور اس کا اپنا ہی پریشر ہوتا ہے کیونکہ اس سے قبل میں جوٹی وی کے میچز کھیلا ہوں وہ پشاور پینتھر ز یا سوئی ناردن گیس کیلئے کھیلا ہوں لیکن پاکستان کی نمائندگی کرنا بہت بڑی بات ہے اور بیس کروڑ لوگوں کی نظریں آپ پر لگی ہوتی ہیں کیونکہ آپ ان تمام لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی آپ پر ایک دباﺅ آجاتا ہے کہ آپ اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے پریشر میں کھیلنے کا مزہ آتا ہے اور میں اس سے گھبراتا نہیں ہوں بلکہ زیادہ فوکس ہو کر کھیلتا ہوں۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ انہوں نے پرفارم بھی کروا دیا۔
سوال: ون ڈے انٹرنیشنل میں پانچویں، چھٹے نمبر پر کھیلتے ہوئے سوکے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنانا مشکل نہیں ہے جبکہ پرانے گیند کے ساتھ فیلڈ بھی کھلی ہوئی ہوتی ہے؟
محمد رضوان: یہ بالکل حقیقت بات ہے کیونکہ درمیانی اوورز میں باﺅنڈریز حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا لیکن میں نے اپنے ذہن میں صرف ایک بات رکھی ہوئی ہے کہ ڈاٹ بال نہیں کھیلنا۔ حتی کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر بال پر کم از کم سنگل ضرور لینی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کو خراب بال بھی مل جاتی ہے جس پر باﺅنڈری لگائی جا سکے یا پھر میں خود بھی چانس لے کر باﺅنڈری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس کی وجہ سے اسٹرائیک ریٹ اوپر چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات بیٹسمین اننگز کی پہلی گیند کو احتیاط سے کھیلتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ چوکے یا چھکے والی ہے تو میں شاٹ کھیلنے میں تاخیر نہیں کرتا جبکہ سنگل حاصل کرنا تو لازمی ہے۔ ڈاٹ بال کا تو چکر نہیں ہے اور میں آپ کو بتاﺅں کہ میں اچھے گیند کا زیادہ انتظار کرتا ہوں کیونکہ اچھے بال پر جب شاٹ لگتا ہے تو وہ چوکا یا چھکا ہی ہوتا ہے۔
سوال: آپ اپنا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں؟
محمد رضوان: میرے مستقبل کاصرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہی بہتر پتا ہے۔ البتہ میری خواہش تو پاکستان کیلئے کھیل کے تینوں فارمیٹ میں لمبے عرصے تک کامیابی کے ساتھ کھیلنے کی ہے۔ اسی لیے میری تمام تر توجہ کا مرکز کرکٹ کا کھیل ہے۔ میرا فوکس صرف اس بات پر ہے کہ ون ڈے فارمیٹ میں مڈل آرڈر میں کھیلتے ہوئے اپنے اسٹرائیک ریٹ کو مزید بہتر بناﺅں کیونکہ موجودہ کرکٹ میں چھٹے ساتویں نمبر پر کھیلنے والے بیٹسمین کا کردار بہت اہم ہے اور آپ دوسری ٹیموں کو دیکھیں تو تقریباً سب کے پاس اس پوزیشن پر ایسے بیٹسمین موجود ہیں جو میچ کوفنش کر سکتے ہیں۔ اس لیے میری بھی کوشش ہے کہ میں پاکستان کیلئے یہ کردار ادا کروں۔ اس کے علاوہ میں وکٹ کےپنگ کے معیار کو بہت بلند رکھنا چاہتا ہوں اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ میچز میں فتوحات دلواﺅں۔