بیجنگ (شِںہوا) ہسپانوی صحافی ہاویئرگارشیا نے اپنی نئی کتاب ” چائنہ ، تھریٹ آر ہوپ، ایک عملی انقلاب کی حقیقت” میں لکھا ہے کہ عالمی میڈیا اور بہت سے سیاستدان اور حکومتیں ہمیں روز اس بات سے خوفزدہ کرتی ہیں کہ چین کا عروج باقی دنیا اور خاص طور پر مغرب کے لیے خطرہ ہے۔
گارشیا نے شِںہوا کو ایک انٹرویو میں کہاکہ "چین قطعی خطرہ نہیں ہے”۔چین عملی طور پر ایک بھی گولی چلائے، تشدد ، جنگوں اور نو آبادیات کے بغیر دوسری عالمی اقتصادی قوت بن چکا ہے۔
بدنامی کی مہم
مشرق وسطیٰ، وینزویلا، جرمنی اور چین میں ہسپانوی زبان کی معروف نیوز ایجنسی ای ایف ای کے سابق نمائندے کے لیے ” چائنہ تھریٹ” کا نظریہ اس ایشیائی ملک کے پرامن عروج کو روکنے کی ایک منظم امریکی چال سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔یہ واشنگٹن کی بالادستی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
گارشیا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکہ یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ عالمی بالادستی برقرار رکھنے میں اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نے معاشی، تجارتی، تکنیکی، سائنسی، سیاسی، صحت اور میڈیا کے شعبوں میں "ہشت پا "جیسی ” ہائبرڈ جنگ” شروع کررکھی ہے جس میں انٹیلی جنس اور جاسوسی کی کارروائیاں، سنکیانگ جیسے خطوں میں عدم استحکام کی مہم، ہانگ کانگ یا تائیوان میں علیحدگی پسندی کی معاونت اور چین کے ساحل پر فوجی دھمکیاں شامل ہیں۔
ایک متنوع، دلچسپ ملک
صحافی نے چین میں اپنے 4 برس سے زائد قیام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ ایک آزاد نقطہ نظرکے ساتھ انہوں نے ایک ایسا چین دیکھا جو مغربی میڈیا کے بیان کردہ چین سے یکسر مختلف ہے۔
انہوں نے کہا سچ یہ ہے کہ چین نے مجھے حیران کردیا۔ یہ ایک بہت مختلف اور بہت متنوع ملک ہے، کچھ چیزوں میں بہت زیادہ ترقی یافتہ اور ایک دلچسپ ملک ہے یہاں بہت سی چیزیں ہیں جن کی توقع نہیں کی جاسکتی جیسا کہ ملک میں زندگی کیسی ہے۔ "میں خود کو تمام تعصبات سے پاک کرتے اور انتہائی کھلے ذہن کے ساتھ اس ملک میں پہنچا”۔
ایک رپورٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے گارشیا کی ملاقات 34 سالہ ڈنگ یان سے ہوئی جنہوں نے انہیں بتایا کہ پانی یا بجلی کے بغیر دیہی علاقوں میں اپنے بچپن سے لیکر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے، فلولوجی میں ڈگری حاصل کرنے اور اعلیٰ معیار کی عوامی خدمات تک رسائی والے شہر میں آباد ہونے تک، کس طرح ان کی زندگی بدلی ۔
کثیرقطبی دنیا کے لئے امید
مصنف نے چین کے مختلف علاقوں، صوبوں اور شہروں جیسے سنکیانگ اور شین ژین کا سفر کیا تاکہ ان امور کو خود دیکھے جن کے بارے وہ جاننا چاہتے تھے۔ سنکیانگ میں مبینہ نسل کشی بارے میں گارشیا نے کہا کہ اس طرح کے الزامات صرف انٹرنیٹ سے جمع کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہیں یہ "کسی حقیقی صورتحال یا عملی طور پر جمع کردہ نہیں ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ سنکیانگ میں ویغور ثقافت کا احترام کیا جاتا ہے۔ ویغور زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی اور مقامی میڈیا میں استعمال ہوتی ہے۔ گزشتہ دس برس میں ویغور آبادی میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے جو قومی آبادی میں اضافے سے تین گنا زیادہ ہے۔
نوول کرونا وائرس بارے چین کے اقدامات پر گارشیا نے کہا کہ "انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے” ۔ نوول کرونا وائرس ردعمل میں حالیہ بہتری ایک ایسے وقت میں آئی ہے کہ جب وائرس کی جارحیت کم ہوگئی اور موت کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوگیا۔