لندن ( نیٹ نیوز )
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں اہم انکشافات کیے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ شہید ارشد شریف پر فائرنگ کس کس نے کی؟ فائرنگ کا اصل وقت کیا تھا؟کیا قتل کی منصوبہ بندی کینیا سے باہر کی گئی؟ فائرنگ کے بعد ارشد شریف کی موت جائے وقوعہ پر فوری واقع ہوئی یا وہ جب تک زندہ تھے۔ بی بی سی کے رپورٹر نے اپنی اہم رپورٹ میں قتل سے منصوب کرداروں کے بیانات میں متعدد تضادات سامنے رکھ دیئے۔بی بی سے سے گفتگو کرتے ہوئے شہید ارشد شریف کی والدہ اور اہلیہ نے ایک بار پھر انصاف کے لیے دہائیاں دیں، ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہمیں بولنے نہیں دیا گیا اب کم از کم انصاف تو کردیں۔
اہلیہ سمعیہ ارشد نے کہا کہ ارشد شریف کو کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں تاہم ہم بہت محتاط بھی تھے لیکن اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔بی بی سی کی ٹیم کینیا پہنچی، جائے وقوعہ کا دورہ کیا پولیس اسٹیشن سے تفصیلات لیں اور مقتول کی گاڑی کاجائزہ اور اہم شخصیات سے بات چیت کی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کینیا پولیس کے اہلکاروں نے ارشد شریف کیس سے متعلق معلومات دینے کے لیے مبینہ طور پر بی بی سی کی ٹیم سے رشوت طلب کی۔ارشد شریف پر فائرنگ میں ملوث جی ایس یو کے عملے کو احکامات کس نے دئیے اور منصوبہ بندی کہاں ہوئی جی ایس یو کے سابق اہلکار جارج مساملی کے بیان نے معاملے کو نیا رخ دے دیا۔
بی بی سی کی رپورٹ میں فائرنگ کی ٹائمنگ سے متعلق بیانات میں تضادات کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے، واقعے سے متعلق مختلف افراد فائرنگ کا وقت مختلف بتارہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ارشد شریف کو مردہ حالت میں سب سے پہلے دیکھنے والے افراد کے بیانات میں بھی واضح تضاد موجود ہے، گاڑی میں موجود ارشد شریف کی کیا حالت تھی، ڈرائیور خرم جب گاڑی لے کر ریزورٹ پہنچا تو گارڈ جوزف نے کیا دیکھا، گارڈ نے بی بی سی رپورٹر کو ساری تفصیلات بیان کردیں۔بی بی سی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے آئی پیڈ اور آئی فون سے متعلق سوالات اور کسی بیرونی ایجنسی یا فرد کے ملوث ہونے کے شواہد کا بھی آئیپوا چیف کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہلکاروں کے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اور اپنی تحقیقاتی ٹیم کو اسلحے کے استعمال کے بارے میں دئیے گئے بیانات میں بھی کئی جھول ہیں۔کبھی اہلکاروں نے کہا کہ انہوں نے فائرنگ کی کبھی کہا نہیں کی، گاڑی پر مجموعی طور پر گولیوں کے نو نشانات موجود ہیں جبکہ پولیس کو اس مقام سے تیرہ خول ملے ہیں۔اس حوالے سے کینیا کے وزیر داخلہ کیتھورے کنڈیکی نے بی بی سی کو انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ ان کی حکومت یا ادارے نے پاکستان سے تعاون نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تحقیقات کو طول دینا کسی صورت کینیا کے مفاد میں نہیں ہے، پاکستانی شہریوں اور ارشد شریف کے خاندان کو یقین دلاتا ہوں کہ جلد ازجلد قتل کی تحقیقات مکمل کرلیں گے۔