نیو دہلی ( نیٹ نیوز )
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گروپ 20 کی ایک سال کے لیے سربراہی سنبھالتے ہی دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑے چیلنج کے علاوہ جن دو سرے بڑے مسئلوں کی طرف عالمی برادی کی توجہ مبذول کرائی ہے وہ وبائی امراض اور دہشت گردی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے باہمی جنگوں کا وقت نہیں عالمی طاقتوں کو مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔
واضح رہے بھارت دنیا میں کوئلہ استعمال کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ انسانیت کو فوری درپیش سب سے بڑے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلےسے نمٹنے کے لیے اگلے 48 سال تک کاربن کا اخراج صفر درجے تک لا سکے۔ خود بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سمیت بڑے شہر بد ترین آلودگی کی وجہ سے مشہور ہیں مودی گزشتہ روز گفتگو کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گروپ 20 کے سربراہی اجلاس منعقدہ انڈونیشیا میں روس اور یوکرین کے درمیان تصادم کا موضوع غالب رہا تھا۔ اس لیے دیگر کئی موضوعات پر زیادہ بات نہ ہو سکی۔ بعض ممالک دنیا کی اقتصادی صورت حال کو ہی زیر بحث رکھنے کے لیے کوشاں رہے۔ لیکن آج ہمیں اپنی بقا کے لیےلڑنا ہے۔ ‘نئے دور کی ضرورت جنگ نہیں ہے، یقینا یہ واحد ضرورت نہیں ہو سکتی ہے۔ ‘ انہوں نے کہا آج کا سب سے بڑا چیلنج جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں وہ موسمیاتی تبدیلیوں ، دہشت گردی اور وباوں کے چیلنج ہیں۔ ان چیلنجوں کا مقابلہ باہمی جھگڑوں کے ذریعے ممکن نہیں ہے اس کے لیے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔’ان کے جنگ کے بارے میں ریمارکس کی بازگشت روسی صدر ولادی میر پوٹن کے لیے بھی ماہ ستمبر میں ایک کانفرنس کے موقع پر سنائی دی تھی۔ جب انہوں نے کہا تھا یہ جنگ کا وقت نہیں ہے۔اب جمعرات کے روز اعلامیے میں مودی نے کہا ہے کہ جغرافیائی و سیاسی کشیدگی عالمی خرابی اور بد امنی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے’ اس کی مثال ہے کہ ‘ ہمیں پہلے اپنے خاندانوں کو ہماری پریشانی اور تشویش کا موضوع ہونا چاہیے۔ ‘
واضح رہے گروپ 20 کے ممبر ملکوں نے پچھلے ماہ اتفاق کیا تھا کہ عالمی سطح پر بڑھنے والے درجہ حرارت کو کم کرنے کی کوشش کریں گے، نیز کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ کاربن کے اخراج کے امکانات کم کیے جا سکیں۔بھارت جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ کوئلہ استعمال کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے اسے بھی کوئلے کے استعمال کے حوالے سے اپنی ترجیحات کو نیچے لانا ہو گا تاکہ 2070 تک کاربن کا اخراج صفر ہو سکے۔نریندر مودی نے اس حوالے سے کہا ہم چاہیں گے کہ ہم دنیا کے طاقتور ملکوں کے درمیان اس بارے میں حوصلہ افزائی کا ماحول بنانے کے لیے مشاورت کریں۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کو روکنے کی کوشش کریں تاکہ عالمی سلامتی کو درپیش خطرہ کم کیا جا سکے۔