دہلی (رپورٹ ,گیتا پانڈے)
گذشتہ چند ہفتوں سے انڈیا کو ملک کے ’سب سے ہولناک قتل‘ کے کیس نے جکڑ رکھا ہے۔انڈیا کے دارالحکومت دہلی کی پولیس نے ایک نوجوان آفتاب پونا والا کو اس قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ان پر اپنے ساتھ تین سال تک بنا شادی کے رہنے والی دوست شردھا والکر کو بے دردی سے قتل کرنے کے الزامات ہیں۔
پولیس نے آفتاب پونا والا پر الزامات عائد کیے ہیں کہ انھوں نے مئی میں اپنی 27 سالہ دوست شردھا کو قتل کیا اور ان کے جسم کے درجنوں ٹکڑے کر کے انھیں اپنے ہی گھر کے فریج میں رکھ دیا اور گذشتہ مہینوں کے دوران شہر کے مختلف حصوں میں ٹکڑوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے گھومتے رہے۔
آفتاب پونا والا پولیس حراست میں ہیں اور انھوں نے ابھی تک عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دیا ہے، مگر منگل کو انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’ان سے منسوب جو معلومات پھیلائی جا رہی ہیں وہ درست نہیں ہیں‘ اور یہ کہ ’وہ پولیس سے تفتیش میں مکمل تعاون کر رہے ہیں۔‘
شردھا واکر کی موت کی خبر اس وقت منظر عام پر آئی تھی جب گذشتہ ماہ ان کے والد نے ان کی گمشدگی کی شکایت درج کروائی تھی۔
اس کے بعد سے ان کے مبینہ قتل کی ہولناک تفصیلات انڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر اخباروں کی سرخیاں بن رہی ہیں، اور نامعلوم پولیس اہلکاروں کی جانب سے مقامی صحافیوں کو غیر تصدیق شدہ معلومات فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
قتل کے اس واقعے کو ’فریج مرڈر‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس قتل کے متعلق معلومات کے حوالے سے عوام کی بہت دلچسپی رہی ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس اس کی تفتیش کے حوالے سے لائیو پیجز بھی چلا رہی ہیں جہاں پل پل کی خبر دی جا رہی ہے۔
جبکہ دوسری جانب ملک کے مختلف شہروں میں اس قتل کے واقعے پر عوام میں غم و غصہ بھی پایا گیا ہے اور مظاہرین نے پونا والا کے پتلے نذر آتش کرتے ہوئے انھیں سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سابق پولیس اہلکاروں نے میڈیا کی بے جا کوریج پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ریاست اترپردیش کی پولیس کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر جنرل اکرام سنگھ نے اسے ’انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس کی تفتیش سے متعلق پل پل کا تبصرہ تحقیقات کے لیے نقصان دہ اور مقتول کی بے عزتی کے مترادف ہے۔‘
اس کیس کی مسلسل جاری رہنے والی کوریج نے حقائق اور افسانے میں فرق کو مشکل بنا دیا ہے۔ جوڑے کی ملاقات کیسے ہوئی تھی سے لے کر دیگر واقعات کی تفصیل مبہم ہے اور اس میں تضاد پایا ہے
اگرچہ شردھا اور آفتاب ممبئی شہر کے ایک ہی علاقے میں رہتے تھے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی ملاقات ایک آن لائن ڈیٹنگ ایپ بمبل پر ہوئی تھی۔
مگر اکتوبر کے اوائل میں ان کے والد کی جانب سے گمشدگی کی درج کروائی گئی شکایت کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی مرتبہ ملاقات سنہ 2018 میں ایک کال سینٹر میں ہوئی تھی جہاں وہ دونوں کام کرتے تھے۔
شردھا کا اپنے خاندان کے ساتھ رشتہ کچھ کمزور ہو گیا تھا کیونکہ انھوں نے شردھا اور آفتاب کے رشتے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پولیس کو درج کروائی گئی شکایت میں ان کے والد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو آفتاب پونا والا کے ساتھ رہنے سے منع کرتے تھے کیونکہ ’ہم ہندو مذہب سے تھے اور آفتاب مسلمان تھا اور ہم اپنی برادری اور مذہب سے باہر شادی نہیں کرتے۔‘
لیکن جوڑے نے سنہ 2019 میں ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا اور وہ رواں برس کے شروع میں دہلی آ گئے اور چھتر پور پہاڑی کے علاقے میں انھوں نے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا۔
جوڑے کے دوستوں اور پولیس کا کہنا تھا کہ دونوں میں اکثر جھگڑا ہوتا تھا اور شردھا آفتاب پر مار پیٹ کا الزام لگاتی تھی۔
سینیئر پولیس اہلکار انکت چوہان نے اے این آئی کو بتایا کہ شردھا نے پونا والا پر اس سے شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا اور ’18 مئی کو آفتاب نے طیش میں آکر شردھا کو گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔‘
شردھا کے والد نے ممبئی پولیس سے اس وقت رابطہ کیا جب شردھا کے دوستوں نے انھیں آگاہ کیا کہ ان کی گذشتہ چند ماہ سے شردھا سے کوئی بات نہیں ہوئی اور اس کا فون بھی بند جا رہا تھا۔‘
بدھ کو ایک ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ منظر عام پر آیا جس کے متعلق دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ شردھا نے یہ نوٹ 2020 میں لکھا تھا جس میں اس نے ممبئی پولیس سے شکایت کی تھی کہ آفتاب نے اسے مارا پیٹا ہے اور ’اسے جان سے مارنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی دھمکی دی ہے۔‘
بالکل ویسے ہی دو سال بعد ہوا جیسا پولیس آفتاب پر الزام عائد کرتی ہے۔
تنقید کے بعد ممبئی پولیس نے جواب دیا کہ اس کیس کی تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں لیکن ’شردھا کے تحریری بیان کے بعد کیس کو بند کر دیا گیا کیونکہ یہ حل ہو گیا ہے اور اب اس میں مزید کوئی تنازعہ نہیں
منگل کوجب آفتاب پونا والا سے ایک عدالت نے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا ہے، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’جو کچھ بھی ہوا وہ اس وقت غصے میں سرزد ہوا اور جان بوجھ کر نہیں کیا گیا۔‘
متعدد حلقوں نے ان کے اس بیان کو ان کا اعترافی بیان قرار دیا ہے مگر ان کے وکیل ابھناش کمار نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے اس قتل کا اعتراف جرم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ’تفتیش میں مکمل تعاون کر رہے ہیں۔‘
آفتاب پونے والا کی گرفتاری کے فوراً بعد پولیس کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے اور شواہد تلاش کرنے کے لیے بھی کچھ معلومات فراہم کی ہیں۔
اس کے بعد پولیس نے ان کے اپارٹمنٹ کی تلاشی لی اور انھیں قریبی جنگل میں لے گئے، جہاں پولیس کے مطابق ’آفتاب نے شردھا کے جسم کے اعضا کو ٹھکانے لگایا تھا۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے کچھ ہڈیاں اور جسم کے اعضا برآمد کیے ہیں جنھیں فرانزک تجزیہ کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور ان اعضا کو شردھا کے والد کے ڈی این اے کے نمونوں سے ملایا جائے گا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا وہ واقعی شردھا کے جسم کے ٹکڑے ہی ہیں۔
میٹل ڈیٹیکٹرز سے لیس پولیس، دہلی کے ایک مضافاتی علاقے گڑگاؤں میں بھی جھاڑیوں میں شردھا کے جسم کو کاٹنے میں استعمال ہونے والے چاقوتلاش کرتی رہی۔ جبکہ دہلی کے علاقے میدان گڑھی میں ایک تالاب سے غوطہ خوروں کی جانب سے کچھ ہڈیاں نکالنے کے بعد اسے مزید شواہد حاصل کرنے کے لیے خالی کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کو ملزم کا پولی گراف ٹیسٹ کرایا گیا اور بعد ازاں اس کا نارکو تجزیہ ٹیسٹ کروائے جانے کا امکان ہے۔ نارکو انلائسز ٹیسٹ میں ’ٹروتھ سیرم‘ نامی ایک دوائی ملزم کے جسم میں ٹیکے کی مدد سے داخل کی جاتی ہے۔ اگرچہ اس ٹیسٹ کی عدالت میں کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، مگر پولیس کی جانب سے یہ کہے جانے کے بعد کے آفتاب پونا والا متضاد بیانات دے کر انھیں گمراہ کر رہے ہیں عدالت کے جج نے یہ ٹیسٹ کرنے کا حکم دیا ہے
منگل کو پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان کی 80 فیصد تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں لیکن رپورٹس کے مطابق وہ اب بھی اس کیس کے اہم شواہد تلاش کر رہے ہتں جو انھیں آفتاب کے خلاف ایک مضبوط مقدمہ بنانے میں مدد دے۔
آفتاب کے اپارٹمنٹ سے شردھا کا کوئی سامان نہیں ملا اور چند ثبوت خراب ہو چکے ہیں کیونکہ اس مبینہ قتل کو سرزد ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’ان کا ماننا ہے کہ ایک بڑے اور بھاری تیز دھار آلے‘ جیسا کے آرا یا قصاب کی چھری، سے شردھا کے جسم کے ٹکڑے کیے گئے ہیں اور انھیں اب تک اس آلہ قتل کی تلاش ہے۔‘
اب تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ ان کو جو ہڈیاں ملیں وہ مقتولہ کی ہی تھیں یا نہیں۔ چند رپورٹس کے مطابق یہ ہڈیاں قتل کے کئی ماہ بعد ملیں ہیں جس کی وجہ سے ان کے خراب ہو جانے کا خدشہ ہے۔
دلی پولیس کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا ہے کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت کم ہیں اور انھوں نے مقدمہ صرف ایسے شواہد کی مدد سے بنایا جو عدالت میں ثابت نہیں ہو سکیں گے۔
بی بی سی نے دلی پولیس سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم حکام کا کہنا تھا کہ وہ تفتیش میں مصروف ہیں۔
سابق پولیس افسر وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ بہت سے شواہد ہیں اور ایک اچھا تفتیش کار سزا دلوا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھار جرم میں استعمال ہونے والا ہتھیار بازیاب کرنے میں وقت لگتا ہے لیکن اگر اس پر خون کا ایک دھبہ بھی موجود ہو تو آپ مضبوط کیس بنا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پونا والا کے خلاف کافی شواہد ہیں جیسا کہ وہ دونوں اکھٹے رہتے تھے، پڑوسیوں کے بیانات ہیں، اور سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شردھا باقاعدگی سے اس جگہ آتی تھی۔ تو اس کے پاس بچنے کے لیے زیادہ راستے نہیں ہیں۔ ایک ہندی اخبار سے بات کرتے ہوئے پونا والا کے وکیل کمار نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک مشکل کیس ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ ان کے موکل کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات سے مکمل آگاہی حاصل نہیں کر لیتے، اس وقت تک یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس کیس میں ان کا دفاع کتنا آسان یا مشکل ہو گا۔