ڈھاکہ۔(مانیٹرنگ ڈیسک ) :بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور دیگر9افراد کے خلاف نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کر دی ہیں۔یہ الزامات ان کی حکومت کے خلاف طلبا کی عوامی تحریک کے دوران 15 جولائی سے 5 اگست تک کئے کئے اقدامات سے متعلق ہیں۔ بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کی تحقیقاتی ایجنسی میں شیخ حسینہ واجد ، عوامی لیگ کے جنرل سکریٹری اور سابق روڈ ،ٹرانسپورٹ اور پلوں کے وزیر عبیدالقادر، سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال، اور پارٹی کے کئی اہم رہنمائوں کے خلاف بدھ کوشکایت درج کرائی گئی تھی ۔ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق، شکایت کنندہ کے وکیل غازی ایم ایچ تمیم نے جمعرات کو تصدیق کی کہ ٹریبونل نے بدھ کی رات ہی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔درخواست میں شیخ حسینہ واجد کی زیرقیادت عوامی لیگ کے ساتھ اس سے منسلک تنظیموں کا بھی نام شامل ہے۔درخواست شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف طلبہ احتجاج کے دوران مارے جانے والے نویں جماعت کے طالب علم عارف احمد صیام کے والد بلبل کبیر کی طرف سے دائر کر وائی گئی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شیخ حسینہ واجد اور ان کے ساتھیوں نے احتجاجی مظاہروں میں شامل طلبہ کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا منصوبہ بنایا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔قبل ازیں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے کہا تھا کہ یکم جولائی سے 5 اگست کے دوران پرتشدد واقعات میں مارے جانے والوں کا مقدمہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے ذریعے چلایا جائے گا۔اس کے علاوہ، بدھ کو شیخ حسینہ واجد اور ان کی کابینہ کے ارکان سمیت کئی دیگر کے خلاف 2015 میں ایک وکیل کو اغوا کرنے کے الزام میں جبری گمشدگی کا مقدمہ بھی درج کرایاگیا تھا۔منگل کو حسینہ اور دیگر 6افراد کے خلاف گزشتہ ماہ کی پرتشدد جھڑپوں کے دوران ایک گروسری شاپ کے مالک کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔دریں اثنا ڈھاکہ کی ایک عدالت نے جمعرات کو پولیس سے کہا ہے کہ وہ 19 جولائی کو کوٹہ سسٹم کے احتجاج کے دورا دارالحکومت ڈھاکہ کے محمد پور علاقے میں پولیس کی فائرنگ سے کریانہ کی دکان کے مالک ابو سعید کی موت پر شیخ حسینہ واجد اور دیگر چھ افراد کے خلاف درج مقدمے کی تحقیقاتی رپورٹ 15 ستمبر تک پیش کرے۔