فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ 62 سالہ اسماعیل ہنیہ تہران میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے۔ فلسطینی تنظیم حماس نے بھی انکی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے اس حملے کو ’ایک غدارانہ صہیونی حملہ‘ قرار دیا ہے۔2006 میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے وزیراعظم بننے والے اسماعیل ہنیہ بدھ کی صبح اپنے محافظ کے ساتھ شہید کردیے گئے۔ ان پر حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب وہ ایران کے نئے صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کےلیے تہران میں موجود تھے۔
اسماعیل ہنیہ فلسطینی تحریک آزادی کے ایک اہم رہنما کے طور پر منظر عام پر آئے اور اپنی سیاسی زندگی کے دوران وہ ہمیشہ اسرائیل کے نشانے پر رہے۔ حالانکہ اسرائیل نے تہران میں ان پر جان لیوا حملے کی ذمہ داری رسمی طور پر قبول نہیں کی لیکن ایک اسرائیلی وزیر نے ان کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔
ابتدائی زندگی
ہنیہ کا تعلق غزہ شہر کے ساحل پر واقع شاطی پناہ گزین کیمپ سے تھا، جہاں وہ ایک پناہ گزین خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا تھا۔اسماعیل ہنیہ فلسطینی پناہ گزینوں کےلیے اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کے زیر انتظام اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اسماعیل ہنیہ نے غزہ شہر کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور دوران طالب علمی اسلامی طلبہ تنظیم میں شامل ہوئے جو بعد میں حماس کی صورت میں سامنے آئی۔1987 میں اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلی انتفادہ (انقلاب) کے دوران ہنیہ فلسطینی نوجوانوں کے احتجاج میں شامل رہے اور اسی دوران حماس کی بنیاد رکھی گئی۔
مرکزی رہنما بننے کا سفر
اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کم از کم تین بار جیل میں قید کیا۔ 1992 میں انہیں دیگر سینئر حماس رہنماؤں کے ساتھ لبنان جلا وطن کیا گیا، لیکن ایک سال بعد وہ غزہ واپس آگئے اور حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی بن گئے۔2003 میں اسرائیل کے ایک حملے میں اسماعیل ہنیہ اور شیخ احمد یاسین دونوں بال بال بچ گئے۔ تاہم بعد میں شیخ یاسین کو اسرائیلی فوج نے شہید کر دیا۔ اس کے بعد اسماعیل ہنیہ حماس کے ایک مرکزی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔2006 کے انتخابات میں حماس نے حیران کن کامیابی حاصل کی اور ہنیہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم بن گئے لیکن مغربی ممالک نے حماس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد روک دی گئی، جس کے نتیجے میں حماس اور فتح کے درمیان تنازع بڑھ گیا۔2007 میں اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں حماس کی حکومت قائم کی اور 2017 میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ بنے۔
قطر اور ترکی منتقلی اور سفارتکاری
اسماعیل ہنیہ 2019 میں غزہ چھوڑ کر ترکی اور قطر منتقل ہوگئے تھے، جہاں انہوں نے حماس کے سیاسی رہنما اور ترجمان کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔انہوں نے ایران اور شام کی قیادت کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا اور 2020 میں ایران کے اسلامی انقلابی گارڈز کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ان کے جنازے میں شرکت کی تھی۔حماس پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں ایران کی طرف سے مالی امداد حاصل کرنے والے کئی گروہوں میں سے ایک تھا، جن میں فلسطینی اسلامی جہاد بھی شامل ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے 2014 کی اسرائیل-غزہ جنگ سے قبل تہران کی حمایت کی تعریف کی تھی۔تاہم شام کی خانہ جنگی کے دوران شام کے صدر بشارالاسد کی مخالفت کے بعد حماس اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ تاہم 2021 میں اسماعیل ہنیہ نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی تھی۔2022 میں اسماعیل ہنیہ نے شام کے صدر بشارالاسد سے ملاقات کی، حالانکہ شام میں بغاوت کے دوران ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔
آخری لمحات
حماس سربراہ اپنی شہادت کے وقت تہران میں ایران کے نئے صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کےلیے وہاں موجود تھے۔اسماعیل ہنیہ کا قتل حماس کےلیے ایک بڑا نقصان ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ماضی میں بھی حماس کے رہنماؤں کو قتل کیا جاتا رہا ہے جس نے فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے۔اسماعیل ہنیہ کی زندگی فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کےلیے وقف تھی اور ان کا نام فلسطینی تحریک کے اہم رہنماؤں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔