واشنگٹن۔:(نیوز ڈیسک)رفح پر حملے کےفیصلے کے بعد امریکی شہریوں کی طرف سے اسرائیل کی حمایت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ معروف ادارے گیلپ کی طرف سے جاری سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی مخالفت کرنے والے امریکی شہریوں کا تناسب 55 فیصد جبکہ حمایت کرنے والوں کا تناسب 36 فیصد رہ گیا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں امریکا میں کرائے گئے ایک ایسے ہی سروے کے مطابق اس وقت غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی حمایت کرنے والے امریکی شہریوں کا تناسب50فیصد جبکہ مخالفت کرنے والوں کا تناسب45فیصد تھا۔امریکی نیوز ویب سائٹ ہل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی میں یہ شرح نسبتاً زیادہ ہے جو آئندہ صدارتی انتخابات میں صدر جو بائیڈن کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ حکمران جماعت کے 75 فیصد کارکنان نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی مخالفت جبکہ 18 فیصد نے حمایت کی ہے۔ پارٹی کے 7 فیصد کارکنان نے اس حوالے سے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔47 فیصد ڈیموکریٹ کارکنان نے اس رائے کا اظہار کیا کہ وہ اسرائیل فلسطین جنگ میں صدر جو بائیڈن کے کردار سے مطمئن ہیں ۔مجموعی طور پر امریکا میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے مطالبے کے لئے اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈیموکریٹ رہنما اور خاتون رکن کانگرس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز امریکی ایوان نمائندگان میں ایک خطاب کے دوران اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا مجرم قرار دے چکی ہیں۔ امریکی سینیٹ میں قائد ایوان چارلز شومر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ڈیموکریٹ پارٹی میں اسرائیل مخالف آوازیں اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس پارٹی کے بعض رہنما اسرائیل کے اعلانیہ حامی بھی ہیں ۔یہ صورت حال نہ صرف پارٹی بلکہ صدر جو بائیڈن کے لئے بھی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے رفح پر اسرائیلی حملے کو ریڈ لائن قرار دینے اور نائب صدر کملا ہیرس کی طرف سے اسے ایک بڑی غلطی قرار دینے کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم کا رفح پر حملے کا فیصلہ امریکی سیاست کے لئے بھی آزمائش بنتا جا رہا ہے۔