کابل (مانیٹرنگ ڈیسک ) جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر نے کہا کہ امارت اسلامیہ تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی اچھے اور مستحکم تعلقات أچاہتی ہے۔نائب وزیر اعظم کے پریس آفس نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کے وفد نے مولوی عبدالکبیر سے ملاقات کی۔ ملاقات میں امارت اسلامیہ کی کابینہ کے کچھ ارکان بھی موجود تھے۔مولوی عبدالکبیر نے کہا کہ امارت اسلامیہ تمام ہمسایہ ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر اچھے تعلقات چاہتی ہے اور امارت اسلامیہ اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کیا جائے گا۔ بہتر ہے کہ دعوؤں اور میڈیا پروپیگنڈے کی بجائے حقائق پر بات کی جائے۔اس ملاقات کے دوران انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس وفد کا دورہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں کارآمد ثابت ہوگا اور مولانا فضل الرحمن اور ان کا ہمراہی وفد اسلام آباد کو امارت اسلامیہ کا واضح پیغام پہنچائیں گے کہ امارت اسلامیہ خطے میں سلامتی اور استحکام چاہتی ہے اور کسی کو افغان سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران افغان تارکین وطن کی میزبانی اور پاکستان کی جانب سے افغانوں کی مدد پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ امارت اسلامیہ کے نائب وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں افغان تارکین وطن کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کی جبری ملک بدری روکی جائے، اور افغان تارکین وطن کو ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔مذکورہ وفد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ان کے دورہ کابل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں اسلامی ممالک میں مشترکات ہیں اور انہیں بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہیے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا وہ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔ دونوں قوموں میں بہت سی مشترکات ہیں۔ وہ چاہتے ہیں موجودہ تعلقات کو دونوں ممالک کی مشترکہ بھلائی کے لیے استعمال کیا جائے۔جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنما اور دیگر ارکان نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی اور مسائل کے حل پر زور دیا۔ اس ملاقات میں امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی بھی موجود تھے، جنہوں نے افغانستان کی اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔