( تحریر اے کے محسن)
امریکہ اور مغربی ممالک روز بروز غیر محفوظ ہوتے جارہے ہیں ابھی پہلے شکاگو میں ایک انتہا پسندھ شخص نے امریکی یوم آزادی کی تقریبات پر فائرنگ کر کے 6 افراد ہلاک کر دیے اور 35 سے زائد زخمی چھوڑے۔ سیاہ باشندوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد امریکی ریاست اوہایو کے شہر ایکرن میں پولیس نے 25 سالہ نہتے سیاہ فام جیلینڈ واکر کو تعصب کا نشانہ بناتے ہوئے 60 گولیاں مار کر بے دردی سے قتل کردیا اور اس کے بعد کئی شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں ، جہاں خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔
اس سے قبل امریکی پولیس میں شامل گورے پولیس اہکاروں نے ایک بے چارے سیاہ فام ( کالے ) شخص جارج فلائیڈ کو سرعام سڑک پر قتل کر دیا تھا ،مئی 2020 کو پولیس اہلکار نے سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر اتنے زور سے گھٹنا رکھے رکھا کہ اس کا دم نکل گیا تھا ۔۔۔ اس کے بعد سیاہ فام باشندوں نے امریکی کی کئی ریاستوں کو بینڈ باجا بجا دیا تھا ۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ممالک پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا اور وہاں کے حالات کا واحد سورس آپکے ہمارے ماموں، چاچو ، خالہ، پھوپھو اور بھائی ہوا کرتے تھے یا پھر ان کا وہ میڈیا جو پاکستانی میڈیا کو چلاتا ہے جس میں وائس آف امریکہ ، اے پی ( نیوز سروس ) ، رائٹر ( نیوز سروس ) ، اے ایف پی ( نیوز سروس ) سی این این اور بی بی سی جیسے دنیا پر مغربی ایجنڈا تھونپنے والے ٹی وی چینلز جو اب بھی ہیں سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں اور ہمارے ٹی وی چینلز اور اخبارات غلام بن کر ان کو تحفظ فراہم کرتے تھے اور کرتے ہیں ۔ پاکستانی میڈیا اپنے ملک کی عزت تار تار کرنے کا ماہر ہے لیکن امریکہ ، یورپ اور مغربی ممالک کی غلامی میں وہاں لگنے والی آگ تک نہیں دیکھاتا حال تو یہ ہے کہ انڈیا میں بے جے پی کھل کر مذہبی دہشتگردی کر رہی ہے ، بی جے پی اور آر ایس ایس کے انتہا پسند نبی مہربان صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کی توہین کر رہے ہیں مگر ہمارے بعض میڈیا ہاؤسز خبروں میں کھل کر انڈیا کا مکروہ چہرہ دیکھانے سے کتراتے نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں آئی پی ایل میچز ، امن کی آشا جیسے انڈین پیڈ کانٹنٹ چلانا ہوتا ہے ۔
امریکہ اور مغرب میں رہنے والوں میں سے اکثر لوگ آپ کو یا آپ کے ملک کو اور معاشرے کو حقارت سے ٹانگ مار کر وہاں گٸے ہوۓ ہیں۔ اب یہ کس منہ سے آپ کو بتا سکتے ہیں کہ وہاں کیا گزر رہی ہے ۔
اب بہرحال موازنہ آسان ہے اور خبر دبانا مشکل ۔ پاکستان میں ایک اے پی ایس ہوا اور ساری قوم متحد ہوگئی کہ ایسا دوبارہ نہ ہو
امریکہ میں آئے روز اسکولوں میں قتل عام ہوتا ہے ، چرچوں پر عیسائی جنونی اور انتہا پسند حملے کر دیتے ہیں مگر گن کنٹرول اور ریگولیٹ تک نہیں ہوپاتی ۔
پاکستان میں اگر سیاسی استحکام ہو تو ہماری حکومت بھی امریکہ میں ہر روز ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرے اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی سیکورٹی بہتر بنانے پر زور دے۔
مگر بد قسمتی سے یہاں دہشتگرد کہنا سکھایا جاتا ہے، مثلاً مسلم انتہا پسند، طالبان انتہا پسند، سنی ، دیوبندی، سلفی ، مقلدین اور غیر مقلدین انتہاپسند
جبکہ وہاں پروٹسٹنٹ یا کیتھولک ، صہیونی، عیسائی یا پھر ہندو دہشتگردی نہیں
بلکہ ذہنی مریض یا پھر ڈیپرسڈ کہا جاتا ہے حالانکہ وہ مذہبی ، لسانی اور علاقائی انتہا پسندی کے عروج پر ہیں ، نیوزی لینڈ میں مسجد میں مارچ 2019 کو جس نے 51 مسلمانوں کو شہید کیا وہ قاتل ’’ برینٹن ٹیرنٹ ’’ عیسائی دہشتگرد تھا وہ خود کہہ رہا ہے میں نے عیسائی ہونے کی وجہ سے ان مسلمانوں کو قتل کیا ہے لیکن ہمارے انگریز کے کالے غلام کہتے ہیں نہیں نہیں ایسا نہیں وہاں کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈن کو دیکھو اس نے کتنی ہمدری کا اظہار کیا حالانکہ اسی جاسنڈا کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف یہ جنونیت بڑھی ہے ، اس نے اپنی سیٹ بچانے کے لیے دنیا کو دیکھایا کہ وہ مسلمانوں کی ہمدرد ہیں