غزہ( خصوصی رپورٹ )
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کے اثرات اب اسرائیل اور غزہ پٹی کی سرحدوں سے نکل کر بہت دور تک پہنچ چکے ہیں۔ اس صورت حال نے بہت سی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔دو ہفتے قبل ہی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کے ممالک ’’ہر روز قریب آ رہے ہیں‘‘ اور یہ کہ وہ ”ایک معاہدے کے دہانے پر ہیں، جو خطے کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہو گی۔‘‘ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ بات بہت پرانی ہو گئی ہے۔مشرق وسطیٰ میں پائیدار قیام امن کی خاطر اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل میں محمد بن سلمان کی عدم دلچسپی بھی دیکھی گئی۔ستمبر کے اواخر میں ہی سعودی شہزادے نے امریکی چینل فوکس نیوز کو دیے گئے ایک اہم انٹرویو میں دو ریاستی حل کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ نیا معاہدہ ’’فلسطینیوں کو ان کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دے گا اور ان کے لیے ایک اچھی زندگی کو یقینی بنائے گا۔‘‘دو ریاستی حل کے لیے دوبارہ حمایت تاہم ہفتے کے دن حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ شروع ہونے کے بعد سعودی عرب عوامی طور پر دو ریاستی حل کی وکالت کرنے پر واپس آ گیا ہے اور ایک بار پھر خود کو فلسطینی آبادی کے مضبوط حامی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔دریں اثنا زیادہ تر دیگر ممالک نے اسرائیل اور اس کے دفاع کے حق کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔موجودہ صورت حال میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عسکریت پسند تنظیم حماس مسئلہ فلسطین کو دوبارہ تازہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ حماس کو یورپی یونین، امریکہ، جرمنی اور متعدد دیگر ممالک بھی ایک دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں۔امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے وابستہ رچرڈ لیبرون کا کہنا ہے کہ حماس کے تازہ اقدامات نے سعودی عرب کو ایک واضح اشارہ دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔لیبرون کا ماننا ہے کہ حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے بیانیے کو تبدیل کر دیں گے۔اسرائیل اور سعودی عرب کے ممکنہ تعلقات خطرے میں اٹلانٹک کونسل میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر جوناتھن پینیکوف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے باہمی تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں میں مستقبل قریب میں کوئی بہتر پیش رفت ہو سکے گی۔‘‘پینیکوف کے خیال میں اگر اسرائیلی آپریشن کے نتیجے میں غزہ میں زیادہ ہلاکتیں اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے تو سعودی اسرائیلی تعلقات میں جلد بہتری کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔پیر کی سہ پہر اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے غزہ کو مکمل طور پر ناکہ بند کر دینے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ غزہ کو بجلی، خوراک یا ایندھن فراہم نہیں کیا جائے گا۔یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز کے ریسرچ فیلو ہیو لوواٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے خیال میں ”عرب رائے عامہ جو زیادہ تر اسرائیل کے خلاف ہے، اسرائیلی اقدامات سے مزید خراب ہو گی۔‘‘لوواٹ ان جذبات کو ”اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے ممکنہ معاہدے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جبکہ یہی جذباتی کیفیات ابراہیمی معاہدے کے رکن عرب ممالک، مثال کے طور پر مراکش اور متحدہ عرب امارات، پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ اپنے ہاں عوامی دباؤ کے خاتمے کی خاطر اسرائیل سے متعلق زیادہ تنقیدی موقف اختیار کریں بلومبرگ فنانشل نیوز سروس کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی شہریوں کے لیے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا ہے لیکن حماس کی کھل کر مذمت کرنے سے گریز بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس عرب ملک نے سن 2020 میں اسرائیل کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے مابین معمول کے تعلقات کا قیام تھا۔امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی یہ صرف عرب ممالک کا ہی دباؤ نہیں جو سعودی عرب کے فیصلوں پر اثر انداز ہو گا کہ آیا وہ اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن ڈیل پر آگے بڑھے یا نہیں، بلکہ خاص طور پر دو دیگر ممالک ایران اور امریکہ بھی اس حوالے سے بڑا کردار ادا کریں گے۔اگرچہ سعودی عرب اور ایران نے اسی سال ایک مفاہمت کے تحت باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں شروع کیں تاہم جب اپنے اپنے اتحادیوں کی بات آتی ہے، تو دونوں ممالک کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایران حماس کی حمایت کرتا ہے جو غزہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے اور اسرائیل پر حملے کرتی ہے۔سعودی عرب کو امید تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے ریاض حکومت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اس مقام پر واپس آ جائیں گے جہاں وہ 2018 میں سعودی حکمرانوں کے ناقد جمال خاشقجی کے قتل سے پہلے تھےدوسری طرف اس سہ فریقی معاہدے سے سعودی عرب کو امریکہ کے ساتھ مضبوط فوجی اتحاد کے ساتھ ساتھ امریکی نگرانی میں یورینیم کی افزودگی کی اجازت بھی مل جائے گی۔پینیکوف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ریاض کے اسٹریٹیجک ماہرین کے ذہنوں میں یہ حقیقی سوال ہو سکتا ہے کہ اسی طرح کے کسی تنازعے میں سعودی عرب کو کتنی ہلاکتوں اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ اس کا دفاعی نظام تو اسرائیلی ڈیفنس سسٹم کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتا۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ”طویل المدتی بنیادوں پر یہ پہلو سعودی عرب کو امریکی سلامتی کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر واپس آنے پر مجبور کر سکتا ہے