ممبئی( نیوز ڈیسک/نیٹ نیوز )انڈین ریاست مہاراشٹر میں پولیس کے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے دفاعی ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے سابق اعلیٰ سائنس دان پردیپ کرولکر کے خلاف فردِ جرم عائد کر دی ہے۔پردیپ کرولکر کو رواں سال مئی میں پاکستان کے لیے مبینہ جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔نیوز ویب سائٹ ’انڈیا ٹائمز‘ کے مطابق اے ٹی ایس فردِ جرم میں بتایا گیا ہے کہ پونہ میں قائم پریمیئر سسٹم انجینیئرنگ لیبارٹری کے ڈائریکٹر کرولکر ایک پاکستانی خاتون ’جاسوس‘ کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں تھے جنہیں وہ زارا داس گپتا کے نام سے جانتے تھے۔
اے ٹی ایس نے کہا کہ دونوں جون 2022 سے ایک دوسرے کے رابطے میں تھے اور وٹس ایپ کے ساتھ ساتھ وائس اور ویڈیو کالز کا بھی استعمال کرتے تھے۔خود کو زارا داس گپتا کے نام سے متعارف کرانے والی مبینہ پاکستانی ہینڈلر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ برطانیہ میں مقیم ایک سافٹ ویئر انجینیئر ہے جنہوں نے مبینہ طور پر ’فحش‘ پیغامات اور ’نازیبا‘ ویڈیوز بھیج کر ان سے دوستی کی۔اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کے مطابق اپنی گرل فرینڈ کا اعتماد جیتنے کے لیے 59 سالہ کرولکر نے خوشی سے تمام حساس معلومات انہیں فراہم کیں۔ان معلومات میں دیگر چیزوں کے علاوہ براہموس لانچر، ڈرون، یو سی وی، اگنی میزائل لانچر اور ملٹری برجنگ سسٹم کے حوالے سے خفیہ اور حساس معلومات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مبینہ ’پاکستانی ہینڈلر‘ سے مختلف پروجیکٹس کے بارے میں بھی بات کی جن میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل (SAM) بھی شامل ہیں۔فردِ جرم میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اگنی-6 لانچر کے بارے میں زارا کو بتایا کہ یہ لانچر انہوں نے خود ڈیزائن کیا ہے۔چیٹ ریکارڈز سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی اور سرکاری نظام الاوقات اور مقامات کو بھی خاتون کے ساتھ شیئر کیا یہ جانتے ہوئے کہ ایسی معلومات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کی جا سکتیں۔زارا نے سینیئر سائنس دان کے ساتھ اپنا ای میل آئی ڈی اور پاس ورڈ بھی شیئر کیا اور اسے اپنے فون پر دو ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے پر مجبور کیا جو کہ میل ویئر (malware) نکلا۔فردِ جرم میں بتایا گیا کہ دونوں دسمبر 2022 تک وٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے لیکن کرولکر کو بعد میں احساس ہوا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا ہے۔فروری 2023 میں کرولکر نے زارا کا نمبر بلاک کر دیا تھا لیکن جلد ہی انہیں ایک اور نامعلوم انڈین نمبر سے واٹس ایپ میسج موصول ہوا جس میں پوچھا گیا کہ ’آپ نے میرا نمبر کیوں بلاک کیا؟‘لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور ڈی آر ڈی او نے ان کی سرگرمیوں کے مشکوک پائے جانے کے بعد داخلی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔سال 1988 سے ڈی آر ڈی او کے ساتھ کام کرنے والے کرولکر نے ایجنسی کے کچھ اہم منصوبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے جس میں ہائپر بارک چیمبر کے ڈیزائن، ڈیولپمنٹ اور ڈیلیوری جیسے کئی ملٹری انجینیئرنگ سسٹمز اور دفاعی آلات شامل ہیں۔ انہیں تین مئی کو ڈی آر ڈی او کی شکایت پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 اور دیگر متعلقہ سیکشن کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔بھارتی نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹی وی‘ کے مطابق ریاست مہاراشٹر کے شہر پونہ کی ایک خصوصی عدالت نے منگل کو پردیپ کرولکر کو 29 مئی تک عدالتی تحویل میں دینے کا حکم دیا تھا۔اخباری رپورٹوں کے مطابق منگل 16 مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران کرولکر نے ہائی بلڈ شوگر کے مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ ادویات اور گھر کے کھانے کی درخواست کی تھی۔عدالت نے پردیپ کرولکر کو ادویات لینے کی اجازت دی لیکن گھر کے کھانے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔استغاثہ نے گذشتہ روز ان کے موبائل فون کا تجزیہ کرنے کی درخواست دی، جس کے بعد خصوصی عدالت نے ان کی پولیس تحویل میں منگل تک توسیع کر دی تھی۔اس سے ایک ہفتے قبل اے ٹی ایس کے ایک عہدیدار نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ یہ ’ہنی ٹریپ‘ کا معاملہ ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے اس واقعے پر کوئی ردعمل اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں وزارت خارجہ سے رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔دونوں ممالک میں اکثر ایک دوسرے کے لیے جاسوسی کے الزام میں مقامی افراد کی گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں کلبھوشن یادیو بھی اسی الزام کے تحت گرفتار ہیں۔