رپورٹ:محمد قیصر چوہان
افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر تسلسل کے ساتھ حملے کیے جا رہے ہیں۔پاک فوج کے بہادر سپاہی اور آفیسرز اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر ملک و قوم کی حفاظت کرنے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے شہری علاقے میرعلی میں 23 مئی کو دہشت گردوں نے فوجی چوکی پر فائرنگ کی جس کاسپاہیوں نے فوری طور پر جواب دیا ۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ سپاہی ظہور خان اور ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ سپاہی رحیم گل نے بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ 15 مئی کو خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں پاک فوج کی گاڑی کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں پاک فوج کے تین جوان شہید ہو گئے تھے۔ شہید ہونے والوں میں پاکپتن کے رہائشی 33 سالہ لانس حوالدار زبیر قادر،ہری پور کے رہائشی 21 سالہ سپاہی عزیر اسفر، ملتان کے رہائشی 22 سالہ سپاہی قاسم مقصود شامل ہیں۔19 اپریل کو شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ایک دہشت گرد کو ہلاک کیا، 21 اپریل کو بلوچستان کے علاقے آواران میں فورسز نے چوکی پر دہشت گردوں کا حملہ پسپا کردیا تاہم بھاگتے ہوئے دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک میجر شہید جبکہ ایک سپاہی زخمی ہو گیا۔23 اپریل کوشمالی وزیرستان کے دیواگر علاقے میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستانی سپاہیوں پر حملہ کیاجس کے نتیجے میں پاک فوج کے 3 جوان شہید ہوئے۔ دہشت گردی کی یہ وارداتیں پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہیں اور دہشت گرد ناقابل معافی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہی خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں دہشت گردوں نے ملٹری کمپاو نڈ میں داخلے کی کوشش کی، سیکیورٹی فورسز کی فوری کارروائی کے نتیجے میں تین دہشت گرد مارے گئے، فائرنگ کے شدید تبادلے میں پاک فوج کے 6 جری سپوت مادر وطن پر قربان ہوگئے۔سات فروری 2022 کو خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی فوجیوں پر فائرنگ کے نتیجے میں پانچ پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔ حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے آٹھ دس ماہ میں پشاور سمیت خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب میں بھی ایسے واقعات منظر عام پر آئے لیکن دہشت گردوں کی کارروائیوں سے عیاںہے کہ ان کا نشانہ خاص طور پرخیبر پختونخوا اور بلوچستان ہیں۔یہ حقیقت مصدقہ ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے متصل علاقوں سے زور پکڑتی دہشت گردی میں بھارت اور اس کے وہ حامی ملوث ہیں،جنہیں پاک چین اقتصادی راہداری قبول نہیں۔گزشتہ چند مہینوں سے پاکستانی فورسز پرہونے والے دہشت گردی کے حملے یہ ثابت کرتے ہیں کہ”افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں “ موجود ہیں۔داعش کا خراسان چیپٹر بھی ایک بڑے خطرے کے طور پر پاکستان میں مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے۔ اس نے کوئٹہ میں ہزارہ شیعوں، مبینہ افغان طالبان، مذہبی اور سیاسی رہنماو ¿ں کے خلاف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حملے کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں داعش کے دو ہزار عسکریت پسند موجود ہیں جو پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔بلوچستان میں جاری باغیانہ سرگرمیوں میں پانچ گروہ ملوث ہیں جن میں بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سی پیک پر کام کرنے والے چینی اہلکار ان کا بڑا ہدف ہیں۔ذرائع کے مطابق سندھی قوم پرست باغیوں(ریولوشنری آرمی) اور بلوچ علیحدگی پسندوں نے آپس میں اتحاد قائم کر لیا ہے۔ان سب کو امریکہ کی خفیہ ایجنسی” سی آئی اے “، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ” موساد “ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ” را “کی مکمل سپوٹ حاصل ہے۔
افغانستان کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600 کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ساتھ خوست اور ہلمند، پکتیا وغیرہ ہیں، پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کا بڑا سبب بھی افغانستان کا غیر مستحکم ہونا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی حکومت کا بھی پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے۔ ریاستی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے وار لارڈز اپنی اپنی مرضی کا قانون نافذ کر رہے ہیں۔ جو لوگ افغانستان کا انٹیلی جنس نیٹ ورک آپریٹ کر رہے ہیں ،ان کی اطلاعات حاصل کرنے کی بنیاد ملکی سلامتی اور دیگرمعاملات پر نہیں ہے بلکہ ان کا فوکس صرف ایسے لوگوں تک پہنچنا ہوتا ہے جو طالبان کے نظریاتی مخالف ہیں۔طالبان کے نظریاتی مخالف گروہوں سے ہم آہنگ مسلح گروہ افغانستان میں من مانی کر رہے ہیں۔ اس لیے افغانستان کے حالات میں جلد بہتری کی امید نظر نہیں آرہی۔ویسے تو افغانستان کے حکمران چاہے وہ ظاہر شاہ کا دور ہو، سردار داﺅد کی حکومت ہو، خلقی اور پرچمی سوشلسٹوں کی حکومت ہو، افغان مجاہدین کے نام پر برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی کی عبوری حکومتیں ہوں، امریکی حمایت یافتہ کرزئی اور اشرف غنی کا دور ہو یا طالبان کی حکومت ہو، ہر دور میں افغانستان پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کرتا رہا ہے۔حالیہ طالبان حکومت کے قائم ہونے کے بعد پاکستان کا ایک بااثر اور طاقتور حلقہ عوام کو یہ باور کرا رہا تھا کہ اب افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز نہیں ہیں، بھارت کے قونصل خانے بند ہو گئے ہیں، طالبان، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے لہٰذا اب پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہو گی لیکن یہ سب باتیں صرف باتیں ہی رہیں۔ زمینی حقائق یہ رہے کہ طالبان نے افغانستان پر قابض ہوتے ہی پاک افغان سرحد کو متنازعہ کہنا شروع کر دیا اور مسلح طالبان سرحد پر لگی باڑ کو اکھاڑنے لگے۔پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر دیا گیا، اب پاکستان میں ہر دوسرے تیسرے دن دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں لیکن افغانستان کی طالبان حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ آخر کب تک پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے افسر، جوان اور شہری دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے؟ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں موجود ہیں؟۔پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ علاقوں میںحالیہ کچھ عرصے سے ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ اب پاکستان کو افغانستان کے بارے میں روایتی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
عمران خان کی حکومت تو طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے مسلسل کوشاں رہی،اس کے علاوہ سابق حکومت نے افغانستان کو گندم، چینی اور کھاد تک مہیا کی حالانکہ پاکستان میں عوام مہنگائی کی وجہ سے بدحال ہو رہے تھے لیکن سابق حکومت مسلسل پاکستانی عوام کی پرواہ کیے بغیر افغانستان کے طالبان حکومت اور عوام کی مدد کرتی رہی لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کے عوام بس دہشت ہی گردی ملی ہے۔سابق حکومت نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی اختیار نہیں کی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان افغانستان کی حکومت کو خبردار کرتا کہ وہ پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنانے سے باز رہے، سرحد پر لگی باڑ کو اکھاڑنے والے مسلح گروہوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے یا انہیں اپنے ملک سے بے دخل کرے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرے لیکن پاکستان کی حکومت اور پالیسی سازوں نے اس حوالے سے پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یہ خاموش رہنے کی پالیسی کتنی دیر تک چلے گی۔پاکستان کی یہ بھی خواہش اور مطالبہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت دوحہ معاہدے کی شرائط پر عمل کرے۔ اپنی حکومت میں افغانستان میں بسنے والی تمام اقوام کو بھرپور نمایندگی دی جائے۔ افغانستان کی حکومت خواتین کے حقوق کے حوالے سے خاصی تنقید کی زد میں ہے۔ عالمی میڈیا میں جو اطلاعات اآرہی ہیں ‘ان میں یہی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں بچیوں کے اسکول اور کالجز کو بند کر دیا گیا ہے۔اسی طرح جو خواتین گھروں سے باہر نکل کر ملازمتیں یا کوئی اور بزنس کر رہی ہیں ‘ ان پر بھی مختلف قسم کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں‘ افغانستان کے نسلی اور لسانی گروہ جن میں تاجک ،ہزارہ منگول اور ازبک شامل ہیں ،وہ طالبان حکومت کی ساخت اور پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے افغانستان کی حکومت عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ افغانستان کے غیر ملکی اثاثے منجمد ہیں‘ افغانستان کی حکومت کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ بھی نہیں لڑ سکتا۔
پانچ فروری 2022 کو اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے اپنی انتیسویں رپورٹ جاری کی ہے جس میں جنوبی ایشیا میں جون اور دسمبر 2021 کے دوران دہشت گرد گروہ کے فعال ہونے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوﺅں کی تعداد تین ہزار سے پانچ ہزار پانچ سو کے درمیان ہے جن کے رہنما نور ولی محسود ہیں۔15اگست 2021 سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان حکمران ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔لیکن ایک ماہ بعد ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کر دیا۔ٹی ٹی پی اب بھی افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں سرگرم ہے۔ پاکستان نے خطے کے پائیدار امن کے لیے طالبان حکومت کو افغانستان سے ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے حوالے سے بات چیت کی اور یہ باور کرایا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ علاقائی امن و سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ پاکستان افغانستان میں امن کی حمایت کرتا ہے اور وہ اپنے ملک میں مزید جان و مال کے نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سرحد کے اس پار عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں اکثر پراکسی جنگوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ پاکستان پر ٹی ٹی پی کے حملے جاری ہیں۔اس دہشت گرد تنظیم کو بھارتی حمایت حاصل ہے۔ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیاں بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارت نہ صرف ٹی ٹی پی کو تربیت دیتا ہے بلکہ پاکستان کیخلاف اسلحہ اور ہر طرح کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت بھی کرتا ہے۔ بھارت افغان امن کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور ایسے عسکریت پسندوں میں اضافہ چاہتا ہے جو افغان طالبان کی حکومت سے متفق نہیں ہیں۔ بھارت کی سوچ اور ایسے اقدامات نہ صرف ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے بلکہ بھارت ایسے عناصر کو پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے بھی استعمال کر رہا ہے۔پاکستان میں چین کے مفادات پر ٹی ٹی پی کے حملوں کو دونوں طاقتوں کے ساتھ دشمنی میں بھارت کے لیے پراکسی کے طور پر دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ اشرف غنی کی حکومت کے دوران افغان اوربھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے فنڈز اور دیگر مدد فراہم کی ہے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے پاکستان میں بدامنی کے پیچھے بھارتی ہاتھ ہے۔ پاکستان کی حکومت نے افغان حکومت کے دشمن سے ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کی درخواست کی۔ پاکستان نے طویل عرصے سے افغانستان پر زور دیا ہے کہ وہ شمال مشرقی افغان صوبوں کنڑ اور نورستان میں ٹی ٹی پی کی ’محفوظ پناہ گاہوں‘ کو ختم کرے ۔ٹی ٹی پی دو ہزار سات میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں پاکستانی فوجی کوششوں کی مخالفت میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک عسکریت پسند رہنما بیت اللہ محسود کی قیادت میں تنظیم کے طور پر تشکیل دی گئی تھی۔ بھارت کی سرپرستی اور تعاون میں کام کرنے والا عسکریت پسندوں کا یہ گروہ پاکستانی آئین کو نہیں مانتا اور اس گروہ کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ ملک میں ان کا شرعی قانون نافذ کیا جائے۔ دسمبر 2007 میں بیت اللہ کے ترجمان مولوی عمر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کی تشکیل کی ایک اہم وجہ پاکستانی فوج کی کارروائیوں کیخلاف متحدہ محاذ آرائی ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان پر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت کا الزام بھی لگاتی ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامیوںکے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
پاکستان نے ماضی میں فوجی آپشن کو کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ انتہا پسندوں کے خلاف ملک کے نیشنل ایکشن پلان نے، جو کہ 2014 کے سکولوں کے قتل عام کے بعد وضع کیا گیا تھا، نیشنل ایکشن پلان پر عمل کے نتیجے میں تشدد میں نمایاں کمی کی ہے۔ پاکستان کو تشویش ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام ایک بار پھر ملک میں دہشت گردی کو جنم دے سکتا ہے۔اس سے بچنے کیلئے عالمی برادری کو افغانستان میں امن و استحکام کا ساتھ دینا چاہیے۔2004 میں، پاکستانی حکومت نے جنوبی وزیرستان میں نیک محمد کی قیادت میں مقامی طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت عسکریت پسند امن سے رہنے اور عسکریت پسندی کیلئے پاکستانی سرزمین استعمال نہ کرنے پر رضامند ہوئے۔ یہ معاہدہ کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ ٹی ٹی پی نے اپنی ریاست مخالف سرگرمیاں جاری رکھی تھیں۔اگست اور ستمبر 2007 میں، حکومت نے مہمند ایجنسی میں مختلف قبائل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے۔مارچ 2007 میں حکومت نے باجوڑ ایجنسی میں طالبان کے حامی عسکریت پسندوں اور قبائلی رہنماﺅں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے۔میران شاہ امن معاہدہ (2006)، خیبر ایجنسی معاہدہ (2008)، سوات معاہدے (2008) اور پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان کئی دوسرے امن معاہدے اور ان کا وہی انجام ہوا جو پہلے ہوا تھا۔ 2014 میں پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت شروع کی تھی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ 29 جنوری 2014 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کیلئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ چند دنوں کے بعد ٹی ٹی پی نے بھی اپنے نمائندوں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔2021 میں بھی عمراں خان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے اور اس کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی لیکن کچھ عرصے کے بعد ہی ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ دیا۔ امن مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات میں بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کی مسلسل بیرونی حمایت،ناخواندہ لوگوں کو متاثر کر کے ریاست کیخلاف اس کے پروپیگنڈے کی کامیابی، افغانستان میں امن کو نقصان پہنچانا ہے۔افغانستان میں سرحد کے اس پار ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں خطے کیلئے سیکیورٹی خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ٹی ٹی پی کے پاکستان مخالف مقاصد، افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں اور بھارت اسے پاک افغان سرحد کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھی دہشت گردوں کا یہ گروہ متحرک رہتا ہے۔ٹی ٹی پی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ سابق پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھارت کیخلاف ڈوزیئر پیش کیا تھا جس میں دہشت گرد تنظیم کو مالی اور مادی مدد فراہم کرنے کے علاوہ بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ساتھ ٹی ٹی پی کے روابط کی تصدیق ہوتی ہے۔ٹی ٹی پی کے ساتھ بھارت کا تعلق اس بات سے پردہ اٹھاتا ہے کہ بھارت افغانستان میں امن کے امکانات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔بھارت خطے میں بگاڑنے والے کا کردار ادا کر رہا ہے اور ٹی ٹی پی اس کا مہرہ ہے۔پاکستان امن کی حمایت کرتا ہے اور پاکستان کیخلاف سرگرمیوں کیلئے دہشت گردوں کے ذریعے افغان سرزمین کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی کا مقابلہ کرنے کیلئے علاقائی ریاستوں بشمول پاکستان، چین اور روس کی طرف سے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں حکمران اشرافیہ کے بعض غلط فیصلوں، طرز عمل اور مصلحت و سیاسی تقاضوں و مفادات جیسے معاملات کو اولیت دینے سے ایک نیا طبقہ وجود میں آرہا ہے اور یہ طبقہ دوعملی، نظریاتی کنفیوژن کی وجہ خود احتسابی کی صلاحیت سے محروم ہے لیکن یہ ریاستی اور معاشی امور پر اثرانداز ہورہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں عدم برداشت کا ایک خطرناک کلچر پروان چڑھ رہا ہے جس کی نشاندہی کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے کہ اب یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے چونکہ اس سارے عمل میں حسب سابق مذہب کا تڑکا لگا کر اسے دوآتشہ کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔اس لیے لامحالہ دین اور مذہب کو موضوع بحث بنا لیا جاتا ہے جس کے باعث اس کی حساسیت، جواز اور انسداد کا سارا عمل مشکل، پیچیدہ اور جذباتی بن جاتا ہے، ہمارے تئیں قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا جائے اور اس کے طے شدہ نکات کی فہرست باقی و نامکمل معاملات کو نمٹانے کی سعی ہو تو حالات پر قابو رکھنے میں آسانی ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور اداروں کے تحفظات کو بھی ممکنہ طور پر کم کیا جا سکے گا۔پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نکلنے کے لیے ہم سب کو سیاسی، عسکری،سماجی اور نظریاتی سطح پر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ان حلقوں کو ان لوگوں کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھانا ہو گا جو بوجوہ تشدد پسندی اور حالیہ لڑائی کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کو لاعلمی یا مجبوری کے باعث استعمال کیا جا رہا ہے۔مگر بات پھر وہی آجاتی ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت تک عملاًممکن نہیں جب تک تمام طبقوں اور رائے عامہ کو اس جنگ کے منفی اثرات اورخطرناک نتائج کا احساس اور ادراک نہیں ہو جاتا۔ بحیثیت قوم ہماری خواہش اور دعا ہے کہ ملک میں امن کا دور دورہ ہو‘ امن ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے اس کے قیام کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے، تمام عناصر کو اس کی مکمل سپورٹ کرنی ہو گی۔خطے میں پائیدار امن و استحکام کے ان روشن امکانات سے خاطر خواہ استفادہ کرنا اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا موجودہ حکمرانوں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ اس مقصد کے لیے قومی سطح پر موجودہ افتراق و انتشار کا خاتمہ اور اتحاد و یگانگت کا فروغ ناگزیر ہے، اس کے لیے موثر اقدامات میں تاخیر قومی مفاد کے منافی ہوگی، اس ناسور کے مکمل خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی اور صبر آزما جنگ لڑی ہے ،دہشت گردوں کو شکست دینے اور ملک میں قیام امن کے استحکام اور سلامتی کے لیے لازوال قربانیوں کی نہ صرف روشن مثال قائم کی، بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بلند کیاہے۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال نے سب سے زیادہ پریشانی اور مشکلات افغانستان کے غریب عوام کو درپیش ہے افغانستان میں کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں، بیرونی تجارت بھی انتہائی محدود پیمانے پر ہو رہی ہے۔پاکستان اپنی بساکھ کے مطابق افغان عوام کی مدد کر رہا ہے لیکن پاکستان کی معاشی حالت بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ افغانستان کا بوجھ اٹھا سکے۔ ایسے حالات میں سب سے زیادہ ذمے داری افغانستان کی طالبان حکومت کی ہے کہ وہ اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں اپنے طرز حکومت پر نظر ثانی کرے۔ افغانستان کے جو بھی مسائل ہیں، انھیں حل کرنا افغانستان کی حکومت کا سب سے پہلا فرض ہے۔ افغانستان کے عوام کو روزگار فراہم کرنا، معیشت کو بہتر کرنا اور اقوام عالم کو مطمئن کرنا اور ان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا کسی اور کا کام نہیں بلکہ افغانستان کا نظم ونسق چلانے والے طالبان قیادت کا کام ہے۔
پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ایسے تعلقات بنانے چاہئیں جیسے ایک ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں۔ افغانستان پر واضح کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ متصل سرحدی علاقوں میں شرپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا جواب ویسے ہی دیا جائے جیسے افغانستان کی حکومت کا ہو۔