کابل (شِنہوا)ایک افغان سیاسی تجزیہ کار نےکہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ امن، استحکام اور ترقی کے حصول میں افغانستان کی فعال طور پر مدد کرے گی۔ افغانستان اس کے زیادہ تر رکن ممالک کا ہمسایہ ہے جو اس ملک کے بارے میں بہتر تفہیم کے حامل ہیں۔
پہلا معاملہ یہ ہے کہ 90 فیصد سے زائد افغان عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں لہذا شنگھائی تعاون تنظیم انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کر کے افغان عوام کی مدد کر سکتی ہے۔
کابل میں قائم کار دان یونیورسٹی کے لیکچرر جلال بزوان نے شِنہوا کو چار جولائی کو ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے 23 ویں اجلاس سے قبل بتایا کہ دوسرا سب سے اہم اقتصادی تعاون ہے۔
افغانستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناطےاب بھی روایتی کاشتکاری کے آلات پر انحصار کرتا ہے۔ اسکالر نے تجویز پیش کی کہ اس شعبے میں قائدانہ کردار ادا کرنے والا چین بیج، مشینری اور زرعی تربیت فراہم کرکے افغانستان کی مدد کر سکتا ہے۔
افغانستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تجارتی اوراقتصادی تعاون کے ممکنہ فوائد کے بارے میں ماہر نے کہا کہ میرے خیال میں معاشی انضمام، سرمایہ کاری اور تجارت دراصل افغانستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں مدد دے سکتی ہے ۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری افغانستان کے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرے گی۔
انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان اور افغانستان کے درمیان سفارتی رابطے اور انٹیلی جنس کے تبادلے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ افغانستان شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے خطرہ نہیں ہے ۔ ان ممالک کے پاس افغانستان میں حقیقی حکام کے ساتھ تعاون اور سفارتی رابطے کے ذریعے انسداد دہشت گردی کا تجربہ ہے۔
افغانستان کے مسائل کے حل میں چین کے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے تجزیہ کار نے اپریل میں شائع ہونے والی افغان مسئلے پر چین کے موقف کے عنوان سےدستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں افغانستان کے بارے میں چین کی حال ہی میں شائع ہونے والی خارجہ پالیسی بہترین آواز ہے۔
اس میں معتدل اور دا نش مندانہ حکمرانی کے ساتھ افغا نستان میں امن اور تعمیر نو کے بارے میں ملک کی حما یت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔