ٹوکیو (شِنہوا) جاپانی حکومت اپنی جڑیں کھود رہی ہے،اس سلسلے میں جب اس کے جوہری آلودہ پانی کو ٹھکانے لگانے کی بات کی جائے تو اس میں ٹال مٹول کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے۔
تباہ شدہ فوکوشیما جوہری پلانٹ میں پانی کی حفاظت ظاہر کرنے کے لئے گزشتہ برس سمندری پانی میں اسے ابتدائی طور پر شامل کیا گیا تھا۔
رواں سال مارچ میں باورچیوں، ریستورانوں اور خوردہ فروشوں کے ایک چھوٹے گروپ کو فوکوشیما میں تیار کردہ کھانے کا ذائقہ چکھنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا، یہاں تک کہ آ مدہ گروپ آف سیون کے سربراہ اجلاس میں بھی جاپان اپنے اتحادیوں کو پریفیکچر کے اجزاء پر اعتماد کرنے کی ترغیب دینے والا ہے۔
یہ چال بہت واضح ہے جو جاپانی حکومت کے اندرون و بیرون ملک اعتراضات ختم کرنے اور ٹھکانے لگانے کے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ منصوبوں کو درست قرار دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پریشانیوں میں سب سے اہم آلودہ پانی ہی ہے۔
بحرانوں کی زد میں آنے کے بعد سے جوہری پلانٹ بڑے پیمانے پر تابکار آلودہ پانی پیدا کر رہا ہے ۔اس میں تابکار ٹرائیٹیم جیسا مادہ شامل ہے جو جوہری ری ایکٹرز کی ذیلی پیداوار ہے، اسے الگ کرنا بہت ہی مشکل امر ہے۔ اس کے خطرے کے علاوہ آلودہ پانی میں روتھینیم، کوبالٹ، اسٹرانشیئم اور پلوٹونئیم آئسوٹوپس کے ذرات بھی شامل ہیں۔
جاپان کے لاپرواہی اور بے شرمی پر مبنی اقدامات کے سبب بحرالکاہل کو اس وقت شدید آلودگی کا سامنا ہے۔ اندازہ ہے کہ اگر فوکوشیما کا آلودہ پانی سمندر میں چھوڑ دیا جائے تو اسے جنوبی کوریا کے جزیرے جی جو کے ساحل تک پہنچنے میں صرف 7 ماہ جبکہ امریکہ کے مغربی ساحل تک پہنچنے میں کئی سال لگیں گے۔
اس کے علاوہ جاپان کے طاقتور فیصلہ سازوں نے سائنس پر مبنی اور پیشہ ورانہ بحث ومباحثہ اور عوام کے ساتھ مکمل رابطے کے بغیر اپنے غیر مقبول منصوبے کو آگے بڑھایا ۔ بلاشبہ اس کے غیر ذمہ دارانہ اقدام سے اندرون و بیرون ملک بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔
جاپانی حکومت نے اپریل 2021 میں سمندر میں آلودہ پانی چھوڑنے کے اپنے متنازع منصوبے کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ اخراج "سب سے حقیقت پسندانہ” حل ہے جو حقیقتاً بالکل نہیں تھا۔
اگرچہ ہمسایہ ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن حکومت نے اپنا ارادہ تبدیل کرنے سے انکار کرتے ہوئے جنوری میں کہا تھا کہ اخراج "موسم بہار یا موسم گرما میں” شروع ہوجائے گا۔
ٹھکانے لگانے کے منصوبے کی ڈیڈ لائن قریب آنے کے ساتھ ہی سینکڑوں جاپانی شہری ٹوکیو میں متعدد مقامات پر جمع ہوئے اور حکومتی منصوبے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے فوری طور پر معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق جاپان میں 43 فیصد سے زائد افراد سمندرمیں اخراج کے خلاف ہیں اور 90 فیصد سے زائد لوگوں کا خیال ہے کہ اس اقدام کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جاپانی حکومت اپنے عوام کو قائل نہ کرسکی تو وہ بین الاقوامی برداری کو کیسے مطمئن کرے گی؟