بشکیک (شِنہوا) کرغزستان کے ایک معروف ماہر نے کہا ہے کہ آئندہ چین۔وسطی ایشیا سربراہی اجلاس سے ایک نیا پلیٹ فارم مہیا ہونے کے ساتھ ساتھ 6 شریک ممالک کے مابین تعاون کے ایک نئے باب کا آغازہو گا۔
کرغزستان کے ایک معروف ما ہر اور الاتو انٹرنیشنل یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کوبانیچ بیک تابالدیو نے شِنہوا کو دیئے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ وسطی ایشیا نہ صرف جغرافیائی طور پر چین سے قربت رکھتا ہے بلکہ خصوصاً اقتصادی، تجارتی، مالیاتی اور قرضہ جات جیسے شعبوں میں بھی چین کے ساتھ بہت قریبی طور منسلک ہے۔
انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا قدیم شاہراہ ریشم کے ساتھ واقع ہےاور خطے کے تمام ممالک نےمختلف طور پر بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو میں شرکت کی ہے۔وسطی ایشیائی خطے کے تمام ممالک چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا اطلاق کر رہے ہیں جو تمام فریقین کے لئے مفید ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر چین۔کرغزستان۔ازبکستان ریلوے کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں جو سفری سہولیات، توانائی اور شاہراہ ریشم کے ساتھ دیگر بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کے لئے چین اور وسطی ایشیا کی مشترکہ امنگوں کی گواہ ہے۔
چین اور خطے میں واقع ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کی ایک اور ضروری دلیل چین کی نہ صرف اقتصادی میدان یا جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز متعارف کرانے میں کامیابی ہے بلکہ غربت کے خاتمے اور شہری سماجی حالات کو بہتر بنانا بھی ہے۔
مثال کے طور پر ازبکستان غربت میں کمی لانے کے چینی تجربے کو سیکھنے کا خواہش مند ہے۔ 40 برس میں چین نے 70 کروڑ سے زائد افراد کو غربت سے نکالا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ چین کی بہت بڑی مارکیٹ ہر قسم کی اشیا بنانے والوں کے لئے مزید توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ وسطی ایشیا کی سبز زرعی مصنوعات کی چین کو برآمدات میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہر کے مطابق ازبکستان چین کو چیریز برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ کرغزستان اور تاجکستان گوشت، شہد اور خشک میوہ جات سمیت دیگر خوراک کی اشیا چین کو برآمد کرنے میں آہستہ آہستہ اضافہ کر رہے ہیں۔ چین اور قازقستان کے درمیان بھی تجارت بڑھ رہی ہے۔
تابالدیو نے کہا مجھے پختہ یقین ہے کہ شی آن سربراہی اجلاس کے بعد چین اور وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کے مابین تعلقات اور باہمی روابط مضبوط ہوں گے اور ایک نئی سطح پر پہنچیں گے۔