ماسکو (شِنہوا) چین کے صدر شی جن پھنگ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کی دعوت پر روس کے تین روزہ سرکاری دورے پر پیر کی سہ پہر ماسکو پہنچے۔
روس میں بہت سے لوگ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات کی اعلیٰ سطح کی ترقی کو سراہتے ہیں اور اس دورے کے بے تابی سے منتظر تھے ۔ اور انہیں سیاست، معیشت، تجارت، مضبوط عوامی وثقافتی تعاون کے ساتھ ساتھ نئے دور میں دوطرفہ تعلقات میں نئی پیش رفت اور عالمی ترقی میں زیادہ سے زیادہ تعاون کی توقع ہے۔
دونوں سربراہان مملکت کے درمیان تبادلے چین روس تعلقات کا محور اور امید ہیں۔ ان کی رہنمائی کے تحت، چین اور روس کے تعلقات نئی حرکیات اور عزائم سے بھرپور ہیں، جو باہمی اعتماد، پرامن بقائے باہمی اوریکساں مفاد پر مبنی تعاون پر مشتمل بڑے ممالک کے تعلقات کے لیے نئے ماڈل کے لیے ایک عمدہ مثال قائم کر رہے ہیں۔
روسی حکام اور اسکالرز کا خیال ہے کہ چینی صدرکے دورہ روس سے دونوں سربراہان مملکت دو طرفہ تعاون میں مستحکم اور پائیدار پیش رفت کے لیے مل کر کام کریں گے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو مسلسل فائدہ پہنچے گا۔
اس حوالے سے روس چین فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کی فرسٹ ڈپٹی چیئرپرسن گیلینا کولیکووا نے کہا کہ روسی عوام صدر شی کا بہت احترام کرتے ہیں اور اپنے دیرینہ دوست کے دورے کا بے تابی سے انتظار کررہے تھے ۔ کولیکووا 65 سال سے زیادہ عرصے سے روس چین عوامی سفارت کاری میں مصروف ہیں اور انہیں چین کے اعلیٰ ترین سرکاری اعزاز فرینڈشپ میڈل سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شی کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین دوطرفہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان عملی تعاون کو فروغ دے گا۔
مارچ 2013 میں، شی نے بطور چینی صدر اپنے پہلے بیرون ملک دورے کے لیے روس کا انتخاب کیا تھا ۔ دس سال بعد، شی نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے بھی روس کا انتخاب کیا۔