دہلی ( نیٹ نیوز )انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں ایک نوعمر لڑکی کے ساتھ 28 سال قبل دو نوجوانوں نے کئی بار مبینہ طور پر ریپ کیا۔ لڑکی حاملہ ہو گئی اور اس سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ بدنامی کے ڈر سے بچے کو خاموشی سے ایک بے اولاد جوڑے کو دے دیا گیا۔ بچہ بڑا ہو ا۔ اس نے برسوں تک اپنی ماں کو تلاش کیا۔ ماں نے بیٹے کو ریپ کی بات بتائی۔ بیٹے نے ریپ کے 27 برس بعد مقدمہ درج کرایا اور گذشتہ دنوں پولیس نے دو میں سے ایک مبنیہ ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابقیہ واقعہ اتر پردیش کے شاہجہاں پور کا ہے۔ 1994 میں ہردوئی کی رہنے والی ایک نوعمر لڑکی اپنی بہن اور بہنوئی کے یہاں رہنے کے لیے آئی۔ بہنوئی محکمہ جنگلات میں ملازم تھے اور بہن ایک پرائیوٹ سکول میں ٹیچر تھیں۔ جب یہ دونوں گھر پر نہیں ہوتے تھے تو پڑوس کے دو لڑکے محمد رضی اور نقی حسن کا وہاں آنا جانا ہونے لگا۔ پولیس میں درج کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ان دونوں بھائیوں نے اس لڑکی کا کئی بار مبینہ طور پر ریپ کیا۔ لڑکی حاملہ ہو گئی اور اس سے ایک بچہ پیدا ہوا۔لڑکی کے والدین سماج میں بدنامی کے خوف سے کہیں اور منتقل ہو گئے ۔ بچے کو خاموشی کے ساتھ ایک بے اولاد جوڑے کو دے دیا گیا۔ وقت گزرتا گیا۔ اس معاملے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہوا۔ دوسری جانب گود لیے گئے بچے نے بڑے ہو کر اپنی ماں کی تلاش شروع کر دی۔ برسوں کی تلاش کے بعد 24 برس کی عمر میں اس نے اپنی ماں کو ڈھونڈ نکالا۔ وہ اپنی ماں سے ہمیشہ اپنے والد کا نام پوچھتا لیکن اس کی ماں نے کبھی نہیں بتایا۔سنہ 2000 میں ماں کی شادی غازی پور کے ایک نوجوان سے کر دی گئی۔ لیکن چھ برس بعد شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ لڑکپن میں ریپ اور بچے کی پیدائش کے بارے میں پتہ چل گیا۔ شوہر نے خاتون سے ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لی۔
چوبیس سال کے بیٹے نے اب یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ یہ جان کر رہے گا کہ اس کا باپ کون ہے۔ وہ باپ کا نام جاننے پر مصر تھا۔ ماں ایک دن با لآخر ٹوٹ گئی اور مبینہ ریپ اور اس کی پیدائش اور اسے گود لینے کا سارا واقعہ تفصیل سے بتایا۔ بیٹا سکتے میں آ گیا۔ ماں نے پولیس میں درج کرائی گئی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اب اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے اور بیٹے کو بھی ساری سچائی معلوم ہو گئی ہے اس لیے اس نے اپنے بیٹے کے لیے انصاف حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس افسر آنند نے بتایا کہ جب ملزموں سے ابتدائی پوچھ گچھ کی گئی تو انھوں نے متاثرہ خاتون کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔ پولیس نے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ جولائی میں ان کے نمونے لیباریٹری میں ٹسٹ کے لیے بھیجے گئے ۔ اپریل 2022 میں لیباریٹری کی رپور ٹ سے ولدیت کے معاملے کی تصدیق ہو گئی۔ ڈی این سے یہ معلوم ہوا کہ محمد رضی متاثرہ خاتون کے بیٹے کا باپ ہے۔بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ان دونوں کی گرفتاری کے لیے عدالت سے وارنٹ حاصل کیا لیکن تب تک دونوں بھائی روپوش ہو گئے تھے۔ ان کا سراغ حاصل کرنے کے لیے پولیس کی کئی ٹیمیں بنائی گئیں۔ بالآخر گذشتہ دنوں محمد رضی کو حیدرآباد میں گرفتار کیا گیا جہاں وہ ملازمت کرتے ہیں۔ پولیس نے نقی حسن کا بھی پتہ لگا لیا ہے اور ان کی گرفتاری بھی جلد متوقع ہے۔
پولیس کے مطابق متاثرہ خاتون اب لکھنؤ میں رہنے لگی ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق خاتون نےکہا ہے کہ انھوں نے اور ان کے بیٹے نے زندگی بھر تکلیف اور اذیت جھیلی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملزم بھی اپنے جرم کی سزا کاٹیں