لندن (خصوصی رپورٹ)گرین لینڈ دنیا کا ایسا خطہ ہے جس کا نام سن کر یوں لگتا ہے جیسے یہ ایک وسیع و عریض سرسبز و شاداب علاقہ ہو گا جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گرین لینڈ کے زیادہ تر حصے پر برف کے پہاڑ اور چٹانیں ہیں۔گرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے جہاں پر سب سے بڑے گلیشیئرز بھی ہیں جن کے پگھلنے کی تیز رفتاری سے سائنس دان تشویش میں مبتلاہیں۔ایک حالیہ سائنسی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ گرین لینڈ کے تمام گلیشیئرز پگھلنے سے دنیا بھر کے سمندروں میں پانی کی سطح 10 انچ سے زیادہ بلند ہو جائے گی جس کے نتیجے میں کئی ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے اور موسموں کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔بحرِ اوقیانوس میں واقع اس جزیرے کی لمبائی 2670 کلومیٹر اور چوڑائی 1050 کلومیٹر ہے۔ یہ جزیرہ قطب شمالی کے بہت قریب واقع ہے اور اس کا دو تہائی حصہ قطبی دائرے کے اندر ہے۔یہ خیال ہی خوف طاری کر دیتاہے کہ جب 18 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے میں پھیلی ہوئی پانچ ہزار سے 10 ہزار فٹ برف کی موٹی پرتیں پگھل کر سمندروں میں شامل ہو جائیں گی تو دنیا کا کیا منظر نامہ ہو گا۔سائنسی جریدے ’کلائمٹ چینج‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرین لینڈ کی تمام برف پگھلنے سے دنیا بھر کے سمندروں کی سطح کم ازکم 30 انچ اونچی ہو جائے گی جس سے نہ صرف بہت سے ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے بلکہ سمندروں میں جہاز رانی بھی مشکل تر ہو جائے گی۔ برف اور پانی کا توازن بگڑنے کا نتیجہ انتہائی شدید موسم اور خطرناک طوفانوں کی شکل میں نکلے گا۔سائنسی مطالعے کے شریک مصنف اور گلیشیئرز کے علوم کے ایک ماہر ولیم کولگن کہتے ہیں کہ قیاس یہ ہے کہ اس صدی کے آخری یا اگلی صدی کے وسط تک تمام برف پگھل جائے گی۔ولیم کولگن کہتے ہیں کہ اس وقت موسمی حالات کیا ہوں گے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل ہمارا سامنا اکثر جن شدید طوفانوں سے ہوتا ہے، 50 برس پہلے اتنے شدید طوفان بہت کم آتے تھے۔ولیم کولگن کہتے ہیں کہ گلیشیئرز میں دو قسم کی برف ہوتی ہے، ایک وہ جو گلیشیئر کا حصہ ہوتی ہے اور دوسری وہ ہے جو پگھل کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہوتی ہے۔ اس برف کو انہوں نے ’مردہ برف‘ کہتے ہوئے ’زومبی آئس‘ کا نام دیا۔سائنس دان کہتے ہیں کہ سورج کی گرمی سے گلیشیئرز میں پگھلنے کا عمل شروع ہوتا ہے البتہ جب برف باری ہوتی ہے تو پگھلے ہوئے حصوں کو برف باری دوبارہ گلیشیئر کے ساتھ جوڑ دیتی ہے جب کہ ’زومبی آئس‘ کے معاملے میں دوبارہ جڑنے کا عمل نہیں ہو پاتا اور اسے پگھلنا ہی ہوتا ہے۔ عالمی حدت میں اضافے کے نتیجے میں گلیشیئر پگھلنے سے اب برف ’زومبی آئس‘ بن رہی ہے۔گرین لینڈ میں سائنس دانوں کی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ برف باری کے نظام میں ایک قدرتی توازن قائم ہے۔ موسم گرم ہونے پر گلیشیئرز کی برف پگھلتی ہے اور جب برف باری ہوتی ہے تو وہ غائب ہونے والی برف کی جگہ ایک نئی برفانی تہہ بچھا دیتی ہے جو گلیشیئر سے جڑ جاتی ہے۔ جس سے گلیشیئر کی موٹائی اور حجم میں ایک خاص توازن برقرار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے ہزاروں برس سے گلیشیئر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں۔لیکن اب انسان کی دخل اندازی سے اس فطری توازن میں خلل پڑ رہا ہے۔تیل کے بڑھتے ہوئے استعمال سے کاربن گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور گرین لینڈ سمیت دنیا بھر میں پہاڑیوں کی چوٹیوں پر موجود گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔سائنس دان کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ نے پہاڑوں پر موجود برف کی مقدار اور حجم کے توازن میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ اب گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ برف باری اس خلا کو اس لیے پر نہیں کر پا رہی کیوں کہ گلیشیئرز کی ’زومبی آئس‘ اس عمل میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ان کے مطابق ’زومبی آئس‘ کا مقدر گلیشیئر سے جڑنا نہیں بلکہ صرف پگھلنا ہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے عمل کو روکے بغیر سمندروں کی سطح بلند ہونے اور موسموں کو شدید شکل میں ڈھلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔