انقرہ( مانیٹرنگ ڈیسک نیوز ڈیسک )اسرائیلی فوج کے ہاتھو ں مقبوضہ مغربی کنارے میں پچھلے جمعہ کو ہلاک ہونے والی امریکی شہریت رکھنے والی ترک نژاد خاتون عائشہ نور کی لاش ایک ہفتے کے بعد ترکیہ پہنچا دی گئی ہے۔ جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ہےچھبیس سالہ خاتون مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں قائم ناجائز یہودی بستی کے سامنے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مظاہرے میں شریک تھیں۔اسی دوران اسرائیلی فوج نے اسے بھی ٹارگیٹ کر کے ہلاک کر دیا۔ جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر سخت ردعمل اور مذمت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اس ہلاکت پر اسرائیلی فورسز کو مؤرد الزام ٹھہرایا ہے۔ جبکہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ادھر مقتولہ کی لاش استنبول پہنچی تو گورنر استنبول نے اس کی آخری رسومات میں شرکت کی اور اس کے تابوت کو ترکیہ کے پرچم میں لپیٹ کر لے جایا گیا۔انقرہ نے بھی اس خاتون کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل کے بعد تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ یاد رہے یہ واقعہ مغربی کنارے کے بیتا ٹاؤن میں پیش آیا۔اقوام متحدہ کے سامنے بھی انقرہ نے یہ درخواست کی ہے کہ اس واقعے کی بین الاقوامی سطح پر غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہییں۔ترک صدر جو کہ اسرائیل کی غزہ جنگ کے شدید مخالفین میں ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ترک نژاد امریکی خاتون کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل کا یہ واقعہ بلا حساب نہیں جائے گا اور ذمہ داروں کو اس کی سزا ملے گی۔مقتولہ کے خاندان والوں نے کہا ہے کہ گولی اس کے سر میں ماری گئی اور یہ گولی اسرائیلی فوج کے اہلکار نے ماری۔ جب بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی قائم کی گئی ناجائز یہودی بستیوں کے خلاف فلسطینی احتجاج کر رہے تھے۔بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے اور اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا کہ مغربی کنارے میں تشدد کے واقعات اور خطرات کے بڑھنے کا مطلب ہے کہ ایک نیا غزہ سامنے آ رہا ہے
#