نئی دہلی: ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ پر نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کو شدیدتنقید کانشانہ بناتے ہوئے اسے ایک امتیازی قانون قرار دیا ہے جو مساوات کی آئینی اقدار اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے منافی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی حکومت نے پیر کے روز لوک سبھا انتخابات کے متوقع اعلان سے چند ہفتے قبل مسلم دشمن شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)پر عمل درآمد کے لیے قواعد وضوابط کا اعلان کردیا۔ مودی حکومت کی طرف سے دسمبر 2019میں منظور کیے گئے متنازعہ قانون کے تحت بھارت کے پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلم مہاجرین کو بھارتی شہریت د ی جائے گی۔مودی حکومت کے نوٹیفکیشن کے بعد ایمنسٹی انڈیا نے ”ایکس ”پر کئی پوسٹوں میں کہاکہ شہریت ترمیمی قانون ایک امتیازی قانون ہے جو مساوات کی آئینی اقدار اور بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق قانون کے منافی ہے۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے کہا کہ سی اے اے برابری اور عدم امتیاز کے حقوق کے منافی ہے جن کی ضمانت شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدے اور اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں دی گئی ہے۔ ایمنسٹی انڈیا نے کہاکہ بھارتی حکومت نے 2019میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن مظاہروں کا جواب کالے قوانین کے تحت گرفتاریوں اور طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دیا۔ایمنسٹی نے کہاکہ ہم بھارتی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ پرامن احتجاج کا جواب دیتے ہوئے آزادی اظہار، پرامن انجمن اور اجتماع کے حقوق کا احترام کریں۔ سی اے اے کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندو، سکھ، جین، بدھ مت ، پارسی اور عیسائی مذہب کے پیروکاروں کو شہریت دی جاسکتی ہے تاہم اس میں مسلمان شامل نہیں ہیں جس پر بھارت کوشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی حکومت ملک کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے اور ملک میں آباد 20کروڑ مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔