ممبئی( رپورٹ ,نیاز فاروقی,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ) بھارت کی بدنام زمانہ ڈاکو پھولن دیوی کی قیادت میں 35 ڈاکوؤں کی جانب سے ریاست اتر پردیش کے ایک گاؤں میں20 لوگوں کو ہلاک کرنے کے واقعے کے 43 سال بعد اب ایک مقامی عدالت نے ایک 65 سالہ ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔چار دہائی قبل بہمائی نامی اس گاؤں میں ہونے والے اس قتل عام کے معاملے میں یہ پہلی سزا ہے۔اس قتل عام میں شامل شیام بابو نامی شخص کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ہے اور دوسرے زندہ ملزم کو اس واقعے کے وقت نابالغ قرار پاتے ہوئے رہا کر دیا گیا ہے۔اس قتل عام کے بعد ہی پھولن دیوی بین الاقوامی سطح پر مشہور ہو گئیں جو کسی کے لیے ’رابن ہڈ‘ تو کسی کے لیے ایک خطرناک مجرم تھیں۔اس وقت کی رپورٹس کے مطابق یہ حملہ پھولن دیوی نے ’اونچی ذات‘ کے مردوں کی جانب سے اپنے اجتماعی ریپ کا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔فروری 1981 کے اس خوفناک دن، پھولن دیوی اور ان کے گینگ کے ممبران بہمائی گاؤں آئے، گھروں کو لوٹا اور اس کے بعد 25 مردوں کو جمنا ندی کے کنارے جمع کر کے ان پر گولیاں برسا دیں۔اس واقعے میں ہلاک ہونے والے 20 افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق ٹھاکر برادری سے تھا۔پھولن دیوی ایک بدنام ڈاکو تھیں جو انڈین ریاستوں اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے سرحدی علاقوں میں فعال تھیں۔ان کی شادی 11 سال کی عمر میں ان سے تین گنا زیادہ عمر کے شخص سے ہوئی تھی لیکن شادی ٹوٹنے کے بعد ان کے اپنے گھر والوں نے بھی ان سے تعلق توڑ دیا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’جب وہ 20 سال کی تھیں، اس وقت تک وہ متعدد جنسی حملوں کا نشانہ بن چکی تھیں اور انھوں نے جرم کی دنیا اختیار کر لی تھی۔‘’ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اونچی ذات کے لوگوں کو نشانہ بناتی تھیں اور نچلی ذات کے لوگوں میں لوٹ مار کا سامان تقسیم کر دیتی تھیں لیکن انڈین حکام کا اصرار تھا کہ یہ ایک افسانوی بات ہے۔‘پھولن دیوی اپنی شہرت کے عروج پر انڈین میڈیا کے لیے تجسس کا باعث تھیں۔فلم ہدایتکار شیکھر کپور نے ان کی زندگی پر ایک فلم بنائی جس میں انھوں نے دیوی کو ’بینڈیٹ کوین‘ یا ’ڈاکو ملکہ‘ کہا لیکن پھولن دیوی فلم میں اپنے کردار کی تصویر کشی سے متفق نہیں تھیں۔انڈیا میں ’نچلی ذات‘ کے لوگوں کو اب بھی تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے، جو 1980 کی دہائی میں زیادہ عام تھا۔اس کے خلاف ’نچلی ذات‘ کے بہت سے لوگوں نے ہتھیار اٹھائے تھے اور پھولن دیوی اس راستے پر چلنے والی ایک نایاب خاتون تھیں۔وہ جن مرد ڈاکوؤں کی قیادت کر رہی تھیں ان کا تعلق ملاح برادری سے تھا، جو روایتی طور پر کشتیاں چلانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کے گینگ نے علاقے کے 80 سے زائد گاؤں میں ٹھاکروں کو نشانہ بنایا۔عدالتی دستاویز کے مطابق اس وقت بہمائی گاؤں کے آس پاس کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے تین بڑے گینگ سرگرم تھے جو ماضی میں ایک ہی گینگ کا حصہ تھے۔ان میں سے ایک مستقیم گینگ تھا، جس نے کبھی اس خطے میں ’یادو‘ ذات کے لوگوں کو قتل کیا تھا، پھولن گینگ جو بہمائی قتل عام میں ملوث تھا اور لالہ رام شری رام گینگ جس نے بہمائی قتل عام کے بعد پھولن دیوی کی ذات مَلاح کے لوگوں کو قتل کیا تھا۔عدالتی دستاویز کے مطابق بہمائی قتل عام سے پہلے لالہ رام شری رام گینگ، پھولن دیوی گینگ کا حصہ تھے لیکن انھوں نے پھولن دیوی کے پارٹنر وکرم مَلاح کو قتل کر دیا اور گینگ سے الگ ہو گئے۔لالا رام شری رام ٹھاکر ذات سے تھے، تو پھولن دیوی کو شک تھا کہ بہمائی گاؤں کی ٹھاکر برادری انھیں پناہ دے رہی تھی۔عدالتی دستاویز کے مطابق یہ شک ہی بہمائی قتل عام کی وجہ بنا۔بہمائی میں ہلاکتوں کے پس منظر میں ہنگامہ آرائی کے بعد اتر پردیش کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ وی پی سنگھ، جو بعد میں انڈیا کے وزیر اعظم بنے، کو استعفیٰ دینا پڑا۔لیکن پھولن دیوی پولیس کی گرفت سے بچتی رہیں اور ہتھیار ڈالنے کے لیے حکومت کے سامنے شرائط رکھیں، مثلاً یہ کہ حراست میں لیتے وقت انھیں ہتھکڑی نہیں لگائی جائے۔انھوں نے بالآخر 1983 میں ڈاکوؤں کے لیے حکومت کی ایک ایمنیسٹی سکیم کے تحت ہتھیار ڈال دیے۔1994 میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ نے ان کی رہائی میں مدد کی اور ان کے خلاف مقدمات واپس لینے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ 1996 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران ملائم سنگھ نے پھولن دیوی کو اپنی پارٹی سے ٹکٹ بھی دیا۔وہ اپنی پارلیمانی نشست سے تین بار فتح یاب رہیں لیکن سنہ 2001 میں 37 سال کی عمر میں انھیں وسطی دہلی میں پارلیمنٹ کے قریب کے اعلی سکیورٹی والے علاقے میں ان کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔قتل کے اگلے دن ٹھاکر ذات سے تعلق رکھنے والے شیر سنگھ رانا نامی شخص نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ یہ بہمائی قتل عام کا بدلہ تھا۔شیر سنگھ رانا کو گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ دو سال بعد دلی کی انتہائی سکیورٹی والی تہاڑ جیل سے فرار ہو گئے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق دو سال بعد دوبارہ گرفتار ہونے سے پہلے انھوں نے بنگلہ دیش اور افغانستان کا دورہ کیا۔ سنہ 2014 میں انھیں پھولن دیوی کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔