نئی دہلی:(نیوز ڈیسک)بھارت میںوشوا ہندو پریشد کی زیر قیادت میں ہندوتوا تنظیموں نے دہلی کا نام تبدیل کرکے ”اندرا پرستھا” رکھنے اور مغل دور کی عمارتوں کی جگہ ہندو توا رہنمائوں کے مجسمے لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ مطالبات بھارت کی مغل تاریخ کی علامات اورنشانات کو مٹانے کی ہندوتوا تنظیموں کی مہم کا حصہ ہیں۔وی ایچ پی کے ریاستی وزیر سریندر گپتا نے دہلی میں تنظیم کے عہدیداروں کے ساتھ ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے مغل دور کی تعمیرات کو” حملے ”کی علامت قرار دیتے ہوئے انہیں منہدم کرنے کا مطالبہ کیا۔ علمائے کرام، سیاسی اورانسانی حقوق کے کارکن اور مورخین ان کے بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے خبردارکررہے ہیں کہ اسے فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہوگی۔ممتاز اسلامی اسکالر مولانا ارشد مدنی نے اس مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ خطرناک ہے جس سے معاشرے میں تقسیم بڑھے گی۔ انہوں نے کہاکہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور یہ سب کی ثقافت ہے ۔کیا ہم ثقافتی تباہی کی مثال قائم کر رہے ہیں؟دہلی کے کارکن فیروز عالم نے اس مطالبے کو مسلمانوں کوالگ تھلگ کرنے کی کوشش قرار دیا۔شاہ جہاں، اکبر، اور دیگر مغل بادشاہوں نے بھارت کے فن، فن تعمیر اور ثقافت میں انمول حصہ ڈالا، ان کی میراث بھارت کی میراث ہے۔مورخین نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے بھارت کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کو خطرہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ مغل دور کی عمارتیں ہٹانے سے نہ صرف تاریخ مسخ ہوگی بلکہ بھارت کی سیاحت کی صنعت کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔دہلی کا نام تبدیل کرنے اور مغل وراثت کو مٹانے کے مطالبے کو ہندوتوا کے وسیع تر ایجنڈے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔