نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک): بھارت کے سینئر صحافی اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے اپنی نئی کتاب” دی نیو آئیکون ساورکر اینڈ دی فیکٹ” میں دامودر ساورکر کی زندگی اور نظریے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اہم انکشافات کئے ہیں۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ساورکرکو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ایک قوم پرست ہیرو کے طور پر پیش کررہی ہے۔ اس کتاب نے ایک سیاسی بحث چھیڑ دی ہے جس میں شوری نے کہاہے کہ بی جے پی مہاتما گاندھی کی میراث کو دبانے اور ساورکر کے تفرقہ انگیز انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ارون شوری اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی کی این ڈی اے حکومت میں مرکزی وزیر رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ساورکر کی تحریروں، برطانوی آرکائیوز اور معاصر ریکارڈکا استعمال کرتے ہوئے بھارت کی جنگ آزادی میں ساورکر کے کردار کے بارے میں پھیلائے گئے مفروضوں کوبے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے ساورکر کی رحم کی درخواستوں ، تشدد کی وکالت اور بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں ان کے متنازعہ موقف کے بارے میں حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کیا ہے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ ساورکر کے ہندو راشٹر کے نظریے پر عمل کیا گیا تویہ بھارت کو ایک مکار اور دھوکے باز زعفرانی ریاست میں تبدیل کر دے گا۔ارون شوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ساورکر کے خیالات کو آج اس طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے جیسے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ حکومت گاندھی کو مٹانے کیلئے ان کا استعمال کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آخری صفحے پرمیں نے اپنی دلیل پیش کی ہے کہ ہندوازم کو ہندوتوا سے بچائیں۔شوری کی کتاب میںساورکر سے وابستہ متعدد نام نہاد تاریخی واقعات کو غلط اور بے بنیاد ثابت کیاگیا ہے۔کتاب میں گاندھی کے قتل کی سازش میں ساورکر کے ملوث ہونے کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔شوری لکھتے ہیں کہ گاندھی قتل کیس میں ایک سرکاری گواہ نے گواہی دی کہ گوڈسے اور آپٹے نے اس قتل کو انجام دینے سے پہلے ساورکر کا آشیرواد حاصل کیا تھا۔ کتاب میں سب سے زیادہ حیران کن انکشاف ساورکر کی برطانوی حکومت کے سامنے رحم کی درخواست کے بارے میںہے جس میں انہوں نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے ساتھ وفاداری کا وعدہ کیا تھا۔اسی طرح کے ایک معافی نامہ میں ساورکر نے لکھا کہ میں آپ کے کام آئوں گا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا شکر گزار رہوں گا، آپ کیلئے سیاسی طور پر کوئی بھی اتنا مفید نہیں ہو گا جتنا میں ہوں۔اس کے علاوہ شوری نے ساورکر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نظریے پر بھی تنقید کی اور اسے بھارت کو منقسم کرنے کی انگریزوں کی سازش میں مددگار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ساورکر کا نظریہ بھارت کے سیکولر ڈھانچے کو کمزور کر یگا۔