نئی دہلی(نیوز ڈیسک ): بھارت میں سول سوسائٹی گروپوں نے ایک بار پھر عیسائیوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف)کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 2024میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 834واقعات پیش آئے جو 2023میں پیش آنے والے 734واقعات سے ایک سو زیادہ ہیں۔یو سی ایف نے 10جنوری کو ایک بیان میں کہاکہ ان حملوں کے بارے میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت میں ہر روز دو سے زیادہ عیسائیوں کو صرف ان کے مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یہ واقعات کئی طرح سے پیش آتے ہیں، جن میں گرجا گھروں یا دعائیہ اجتماعات پر حملے، اپنے عقیدے پر عمل کرنے والوں کوہراساں کرنا، بائیکاٹ اورکمیونٹی کے وسائل تک رسائی کو محدود کرنا، جھوٹے الزامات اور فوجداری مقدمات خاص طور پر جبری تبدیلی مذہب سے متعلق مقدمات شامل ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتدار کئی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف متنازعہ اور کالے قوانین نے ہندوتوا کے کارکنوں اور ریاست کو اقلیتوںکے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ایک ہتھیار فراہم کیا ہے۔2014کے بعد سے جب نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی حکومت بنی، اس طرح کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔عیسائیوں کے حوالے سے سال 2024میں سب سے زیادہ (209) واقعات اتر پردیش میں ریکارڈ کیے گئے، اس کے بعد چھتیس گڑھ میں (165)واقعات پیش آئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے متعدد واقعات میں ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی، کچھ معاملات میں پولیس میں شکایت درج کرنے کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔اس کے علاوہ متاثرین پولیس سے رجوع کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کا مانناہے کہ پولیس معاملے کو گھمانے کی کوشش کرے گی اورمتاثرین کے خلاف ہی جھوٹے الزامات درج کر کے مجرموں کا ساتھ دے گی۔یو سی ایف کے کنوینر اے سی مائیکل نے کہا کہ زیادہ تر ایف آئی آر تشدد کا نشانہ بننے والوں کے خلاف ہی درج کی جاتی ہیں جبکہ مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پولیس متاثرین کو کہتی ہے اگر آپ نے مقدمہ درج کروایا تو حملہ آور مزید جارحیت اختیار کر سکتے ہیں اوراس کے بعد آپ کی جان کو زیادہ خطرہ ہو گا۔ دسمبر 2024میں درج کیے گئے 73واقعات میں سے 25واقعات میں متاثرین درج فہرست قبائل اور 14میں دلت تھے۔ ان میں سے نو واقعات میں خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ 31دسمبر 2024کو 400سے زائدسینئر عیسائی رہنمائوں اور 30چرچ گروپوں کے ایک وفد نے صدر دروپدی مرمو اور وزیر اعظم مودی سے کمیونٹی کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے مسئلے کو حل کرنے کی اپیل کی تھی ۔ ان کی اپیل کرسمس کے دوران اس طرح کے کئی مقدمات درج ہونے کے بعد سامنے آئی۔تاہم وزیر اعظم مودی گزشتہ کچھ سالوں سے اس طرح کی اپیلوں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مودی نے23دسمبر 2024کو کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا کے زیر اہتمام کرسمس کی تقریبات میں شرکت کی ۔ وہاں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عیسائیوں کے خلاف تشدد کا ذکر کیا لیکن صرف دنیا کے دیگر حصوں میں جیسے جرمنی میں کرسمس مارکیٹ پر حملہ اور سری لنکا میں 2019 کے ایسٹر بم دھماکے کا۔بھارتی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن جان دیال نے بتایا کہ اس تقریر نے مودی کے دوغلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ تشدد کے واقعات پر اپنا درد ظاہر کرنے کے بعد پی ایم مودی نے 2024میں ملک میں نفرت پر مبنی تشدد کے روزانہ دو واقعات میں سے ایک کا بھی ذکر نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے مثال کے طور پر جرمنی حملے کا حوالہ دیا۔ یہ دوغلا پن ہے اور اسی سے ہندوانتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔