نئی دہلی( خصوصی رپورٹ )مودی سرکار کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوںدھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا روز کا معمول بن گیا ہےحال ہی میں صحت اور حفاظت کے قواعد یقینی بنانے کی آڑ میں مسلم مخالف پالیسی اتر پردیش اور ہماچل پردیش میں متعارف کرائی گئی ہےاس مسلم مخالف امتیازی پالیسی میں ریستورانوں پر یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے نام عوامی طور پر ظاہر کریںیہ پالیسی پہلےہندتوا کے پرچاری اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے متعارف کرائی تھی جو کہ بعد میں ہماچل پردیش میں بھی لاگو ہوچکا ہےمقامی لوگوں اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ نئے قوانین دراصل مسلمان کارکنوں اور اداروں پر تعصب اور نفرت کی آڑ میں سازش کے تحت حملہ ہیںمسلم کاروباری مالکان کو تشویش ہے کہ یہ پالیسی سخت گیر ہندو گروپوں جیسے بجرنگ دل کی جانب سےٹارگٹڈ حملوں یا اقتصادی بائیکاٹ کا دروازہ کھولے گی، جس سے ان کے کاروبار کو شدید مندی کا خطرہ ہےہندوستان میں پچھلے پانچ سالوں میں مسلمان دوکانداروں کے خلاف واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہےگزشتہ مہینے بجرنگ دل کے ایک ریاستی رہنما کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے،ویڈیو میں بجرنگ دل کا رہنما، حاضرین سے یہ عہد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ کسی مسلمان دکاندار سے سامان نہیں خریدیں گےنیا لاگو کردہ قانون بی جے پی کی جانب سے مسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہے، جو معاشرے میں خو_ف اور تقسیم پھیلانے کی کوشش کر رہی ہےاتر پردیش کے کاروباری مالکان نے بتایا کہ نئے قوانین کے نتیجے میں انہوں نے مسلم عملے کو برطرف کر دیا ہے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ وہ ہندوتوا کے حامیوں کا آسان نشانہ بن جائیں گےدیگر مسلم زیرِ کنٹرول کاروباروں نے انکشاف کیا کہ انہیں اس ظالمانہ پالیسی کے باعث شدید ہراساں کیا جا رہا ہے، اور بعض تو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیںاتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں ایک ریسٹورنٹ کےمسلمان مالک، رفیق نے کہا؛”مجھے اپنے مسلمان عملے کو برطرف کرنا پڑا کیونکہ اس حکم کے بعد میں ان کی حفاظت کے لیے بے حد فکر مند تھا”، رفیق کے مطابق "یہ امتیازی پالیسی ایک خطرنا!ک سا! زش ہے جو مسلمانوں کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے اور نفرت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہےادریس احمد جو سات سال تک ایک ہندو ریستوران میں باورچی کے طور پر کام کرتے تھے ، کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہےادریس احمد کے مطابق "میں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے یہ نوکری کرتا تھا اورمیں نے محض اپنے مذ-ہب کی وجہ سے یہ نوکری کھو دی”، آخر کب تک مودی سرکار مسلمانوں کو امتیازی پالیسیوں کا شکار بناتی رہے گی؟